غزل – ڈاکٹرجاوید اقبال باتش ؔ
کوئی توروک لے دریا کواب روانی سے
نکال دے مرا کردار بھی کہانی سے
تمہارے حق میں ہی بہتر ہے عشق سے توبہ
تو بچ گیا ہے کسی مرگِ نا گہانی سے
چمکتے نیلگوں موتی ہیں ریگِ دریا پر
تری تلاش میں نکلے ہیں گہرے پانی سے
مجھے تو شہر میں اتنا بھی گمشدہ نہ سمجھ
ملے گی میری ہی خوشبو مری نشانی سے
کتابِ زیست بڑے شوق سے جو پڑھتے ہو
مجھے بھی ڈھونڈ نکالو کسی کہانی سے
محل سرا میں کنیزوں پہ کیا گزرتی ہے
سوال پوچھ کسی بادشاہ کی رانی سے
شکستِ فاش مرے عشق کو ہوئی باتش ؔ
اُلجھ گیا تھا بڑھاپا کسی جوانی سے