نیّرکاشف

غزل – بتول جنوری ۲۰۲۳

نگاہِ لطف و ادا تیری چاہیے بھی نہیں کہ تیری ذات سے وابستہ کچھ گِلے بھی نہیں مچل مچل اٹھے دھڑکن ، دہک اٹھیں رخسار تیری جناب سے کچھ ایسے سلسلے بھی نہیں نہ گفتگو میں جب الفاظ کی ضرورت ہو کچھ اس طرح سے تو یہ دل کبھی ملے ہی نہیں تیرے خیال کی خوشبو سے جو مہک جائیں چمن میں پھول تو ایسے ابھی کھلے ہی نہیں غم جدائی و کرب و ملال چہ معنی ہوں فاصلے بھی کہاں جب کہ رابطے ہی نہیں

مزید پڑھیں

غزل – بتول جون ۲۰۲۳

آرزو کا شمار کیا کیجیے وصل کا انتظار کیا کیجیے کوئی قابض ہؤا خیالوں پہ تو بہانے ہزار، کیا کیجیے ان کی اب گفتگو کسی سے ہے لفظ اپنے شمار کیا کیجیے آپ ہی آپ مسکرانے لگے ان کا بھی اعتبار کیا کیجیے جس نےتھاما ہے ہاتھ اوروں کا اس پہ یہ جاں نثار کیا کیجیے دل کی پروا رہی کہاں ان کو دل کو پھر تار تار کیا کیجیے چھن گیا جو عزیز تھا سب سے آیتوں کا حصار کیا کیجیے موت کی منتظر ہوئیں نظریں زندگی کا خمار کیا کیجیے

مزید پڑھیں