غزل – بتول جنوری ۲۰۲۳
نگاہِ لطف و ادا تیری چاہیے بھی نہیں کہ تیری ذات سے وابستہ کچھ گِلے بھی نہیں مچل مچل اٹھے دھڑکن ، دہک اٹھیں رخسار تیری جناب سے کچھ ایسے سلسلے بھی نہیں نہ گفتگو میں جب الفاظ کی ضرورت ہو کچھ اس طرح سے تو یہ دل کبھی ملے ہی نہیں تیرے خیال کی خوشبو سے جو مہک جائیں چمن میں پھول تو ایسے ابھی کھلے ہی نہیں غم جدائی و کرب و ملال چہ معنی ہوں فاصلے بھی کہاں جب کہ رابطے ہی نہیں