ہٹلر-بتول جنوری ۲۰۲۱
چلتی ہوئی بس میں ’’ اینی فرینک‘‘ کی ڈائری کو پڑھتے ہوئے نہ جانے کب میری توجہ پوری طرح بس کی کھڑکی کی طرف مبذول ہو چکی تھی…بس کی رفتار اس کے شیشوں کو جھانجر کی طرح بجا رہی تھی ۔ اس بے ہودہ آواز نے مجھے کتاب سے اچاٹ کیا تھا یا شیشے کے کھسکنے سے باہر سے آنے والی تیز یخ بستہ ہوا نے ، جس میں تلوارکے دھار جیسی کاٹ یا شاید بار بار ہاتھ اٹھا کر اس شیشے کو بند کرنے کی کوشش … مجھے زیادہ اذیت دے رہی تھی ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
موبائل کے میسج ٹیون کی مدھم آواز مسلسل جاری تھی جس کی طرف سے میں لاپرواہ تھی۔ شاید اس لیے کہ گود میں رکھی’’ اینی فرینک‘‘ کی ڈائری اب بھی میرے دماغ پر حاوی تھی بلکہ میں اس ڈائری کے راوی کے مردہ جسم میں حلول کر کے … نیدر لینڈ کے 1942ء سے 1945 ء کی زندگی کو جی رہی تھی ۔ میں ہٹلر کے زمانے کی دنیا کے ایک گمنام محبق خانے میں ایک بیمار پندرہ سالہ لڑکی کی اذیت جھیل رہی تھی مگراس بیکار سی بس نے مجھے ایک نئی اذیت میں مبتلا کر کے واپس اکیسویں…