مدیہ الرحمان

آرزو بدل جائے- بتول مئی ۲۰۲۱

گرمیوں کی لمبی دوپہریں،اور چھوٹی چھوٹی راتیں کیسے پلک جھپکتے میں گزر جاتیں اسے کچھ خبر نہ ہوتی۔دن بھر گھر کے کام نبٹاتے،سوتے جاگتے وقت کا پتہ ہی نہ چلتا اور پھر رات کو اس دشمنِ جاں کا فون آ جاتا اور صوفے پہ پھسکڑا مارے دنیا جہان کی باتیں کرتے جب روزن سے پو پھٹنے کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا تو وہ حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے جیسے چلا اٹھتی۔
’’احمر صبح ہو گئی‘‘۔
اور وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوتا ’’ہاں تو!‘‘
وہ ان دنوں جیسے ہواؤں میں تھی۔جی چاہتا تھا چیخ چیخ کر ساری دنیا کو بتا دے کہ اسے وہ مل گیا ہے جیسی اس کی چاہ تھی۔
بھاری سی آواز،خوبصورت آنکھیں،گھنے چمکتے بالوں کا چھتہ سر پہ لیے جب وہ بھرے بھرے ہونٹوں سے مسکراتا تو مانو اس کا دل مٹھی میں آ جاتا۔
ٹھہریے،رکیے یہ سب افسانوی باتیں نہیں ہیں حرف حرف حقیقت ہے۔وہ ایسا ہی ساحر تھا۔اسے یاد ہے پہلی بار اس کی آواز سن کر وہ دیر تک حیرت زدہ سی رہی تھی۔
’’تمہاری شکل تو معصوم سی لگتی ہے اور آواز ایسی بھاری جیسے کوئی بڑی عمر کا مرد ہو‘‘۔
یہ اس کا پہلا تبصرہ تھا۔وہ کھل کر ہنسا تھا اور وہ جھینپ سی گئی۔جانے کیوں!
پھر پتہ نہیں…

مزید پڑھیں