اعتبارِ وفا – بتول جنوری ۲۰۲۲
ملگجے سے حلیے میں بکھرے بال اور ویران چہرہ لیے وہ کسی اجڑے ہوئے دیار کی باسی لگ رہی تھی ۔خالی خالی نظروں سے وہ سب کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو حالانکہ وہ سب اس کے اپنے تھے اس کے گھر والے،لیکن کچھ تھا جو اس کےاندر اس شدت سے ٹوٹا کہ وہ سنبھل نہ پا رہی تھی۔جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا، جدائی کا غم اور مستقبل کے اندیشے ، اس خوشی سے جڑے سہانے تصورات پر حاوی ہورہے تھے۔ رتجگے کی چغلی کھاتی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں۔مینا نے پیارسےاسے دیکھا تھا اور پانی کا گلاس لیے اس کے پاس چلی آئی تھی۔ ’’کیا حال بنا رکھا ہے فاطمہ یہ لو پانی پیو‘‘اس نے پانی کا گلاس فاطمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔’’خوشی کا موقع ہے اور تم سوگ منا رہی ہو‘‘۔ فاطمہ نے غائب دماغی سےاسے اجنبی نگاہوں