مدیحۃ الرحمان

اعتبارِ وفا – بتول جنوری ۲۰۲۲

ملگجے سے حلیے میں بکھرے بال اور ویران چہرہ لیے وہ کسی اجڑے ہوئے دیار کی باسی لگ رہی تھی ۔خالی خالی نظروں سے وہ سب کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو حالانکہ وہ سب اس کے اپنے تھے اس کے گھر والے،لیکن کچھ تھا جو اس کےاندر اس شدت سے ٹوٹا کہ وہ سنبھل نہ پا رہی تھی۔جیسے جیسے وقت قریب آرہا تھا، جدائی کا غم اور مستقبل کے اندیشے ، اس خوشی سے جڑے سہانے تصورات پر حاوی ہورہے تھے۔ رتجگے کی چغلی کھاتی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں۔مینا نے پیارسےاسے دیکھا تھا اور پانی کا گلاس لیے اس کے پاس چلی آئی تھی۔ ’’کیا حال بنا رکھا ہے فاطمہ یہ لو پانی پیو‘‘اس نے پانی کا گلاس فاطمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔’’خوشی کا موقع ہے اور تم سوگ منا رہی ہو‘‘۔ فاطمہ نے غائب دماغی سےاسے اجنبی نگاہوں

مزید پڑھیں

ماسی جنتے – بتول فروری ۲۰۲۲

ہوش سنبھالا تو بڑے سے کچے صحن میں لگے نیم کے گھنے درخت کے نیچے دادی کا کھاٹ دیکھا۔سفید براق چادر سے سجے کھاٹ پرروئی کے گالے سی دادی یوں تمکنت سے بیٹھی ہوتیں مانو کسی سلطنت کی شہزادی ہوں۔گرمیوں کی شامیں وہیں چھڑکائو ہوئی زمین سے اٹھتی مٹی کی خوشبو سونگھتے اور بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتے گزرتیںاور سردیوں میں کھاٹ دھوپ کے ساتھ ساتھ پورےصحن میں گھومتا۔پرندوں کی بولیاں،ٹھنڈی ہوا کے جھونکے،اور شام کی چائے کے ساتھ کبھی رس تو کبھی بسکٹ اس سارے منظر کومزید حسین بنا دیتے۔ ہاں ایک چیز اور بھی لازم و ملزوم تھی اور وہ تھی ماسی جنتے۔ان کی صحیح عمر تو کسی کو معلوم نا تھی لیکن لگ بھگ دادی جتنی تو ضرور ہوں گی۔کون تھیں ؟کہاں سے آئی تھیں ؟گزر بسرکیسے ہوتی تھی ؟ان تمام سوالوں کے جواب کوئی نا جانتا تھا۔اور نا کسی کے پاس اتنی فرصت تھی کہ ٹوہ

مزید پڑھیں

ووہٹی – بتول مئی ۲۰۲۲

چھوٹے سے قصبے کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تو تقسیم ہند کے اثرات ستر سال گزر جانے کے بعد بھی واضح دیکھے جا سکتے تھے۔ نہیں سمجھے؟چلیے میرے ساتھ قصبے کی سیر کیجیے۔ مشرق سے مغرب کی طرف جاتی تارکول کی لمبی سڑک جو کہیں کہیں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،اس قصبے کی واحد پختہ سڑک ہے۔جو دوسرے شہر یا گائوں جانے کے لیے آمدورفت کا ذریعہ ہے۔قصبہ شروع ہوتے ہی سڑک کے اطراف میں موجود مختلف اجناس کی دکانیں،پھل اور سبزی فروشوں کی ریڑھیاں،موسم کی مناسبت سے قلفی والے یا بھٹہ بھونتے پھیری والے،خوانچہ فروش،اور اکا دکا جنرل سٹور موجود ہیں۔دکانوں کے سامنے موجود کچی زمین پہ صبح صبح جھاڑو پھیرنے کے بعدپانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ دھول نہ اڑےاور پھر دو تین لکڑی کے بینچ رکھ دئیے جاتے ہیں۔گاہکوں کے ساتھ ساتھ راہگیر بھی گھڑی دو گھڑی سانس لینے کو ان پہ

مزید پڑھیں