محمد احمد رضا انصاری

نا شکرا – نور نومبر ۲۰۲۰

’’جرسی تو بہت پیاری ہے تمہاری۔‘‘ارمغان نے تعریفی نظروں سے باقر کی نئی جرسی کو دیکھا۔ ’’لیکن مجھے یہ پسند نہیں ۔آج سردی زیادہ تھی اسی لیے مجبورا ًپہن کر آنا پڑی۔‘‘باقر نے فورا ًاپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ’’کیوں۔؟‘‘ارمغان اس کی بات سن کر حیران ہوا۔ ’’یہ جرسی میری امی نے بازار کی ایک چھوٹی سی دکان سے خریدکر لائی ہیں۔کم قیمت اور بدصورت۔مجھے تو شیرازکی جرسی اچھی لگی تھی،لیکن امی کہتی ہیںکہ ویسی جرسی بہت مہنگی ہے‘‘ باقر نے وجہ بیان کی۔شیراز ان کا کلاس فیلو تھا اور اس کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔ ’’باقر یار،کبھی تو اللہ پاک کا شکر ادا کر لیا کرو۔ہر وقت نا شکرا پن کرتے ہو۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہمارے درمیان ہیں جنھیں ایسی جرسی بھی نصیب نہیں‘‘ ارمغان خفگی سے بولا۔پھر اسے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا ۔’’ ذرا اپنے پیچھے دیکھو‘‘! باقر نے گردن گھمائی۔پچھلے ڈیسک پر کاشف آج

مزید پڑھیں

جھوٹ پکڑا گیا – نوردسمبر ۲۰۲۰

’’امی جان جنید ابھی تک مدرسے سے واپس نہیں آیا؟‘‘ جواد سکول یونیفارم پہنے ناشتے کی میز پر پہنچ چکا تھا۔لیکن جنید ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔ ’’آرہا ہوگا …ایک تو یہ لڑکا بہت سست ہے۔‘‘ امی جان نے گرما گرم پراٹھا اور آملیٹ کی پلیٹ جواد کے سامنے رکھی اور واپس باورچی خانے میں چلی گئیں۔ ’’جنید کی وجہ سے میں ہر روز لیٹ ہوجاتا ہوں۔استاد صاحب ڈانٹتے ہیں پھر۔‘‘ جواد نے پہلا نوالہ توڑا اور روز والی بات پھر سے دہرائی۔ دونوںبھائی ایک ہی سکول میں زیر تعلیم تھے۔ابو نے خصوصی تاکید کر رکھی تھی کہ چھوٹے بھائی جنید کے ساتھ آیا جایا کرو۔اور اسی لیے جواد کو روز جنید کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ جواد اور جنید دو ہی بھائی تھے۔ان کے ابو ایک فرم میں ملازمت کرتے تھے۔جواد ساتویں اور جنید پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔جواد قرآن مجید پڑھ چکا تھاجبکہ جنید کے چند

مزید پڑھیں