عالیہ شمیم

یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا! – بتول مارچ ۲۰۲۳

اللہ نے نسل انسانی کی بقا کے لیے عورت مرد کے جوڑے بنائے۔ عورت معاشرے کا ستون، خاندان کا مرکز محبت اور قوم کا دھڑکتا دل ہے عورت اور مرد نوع انسانی کے دو اہم جزوہیں اور مل کر معاشرہ کی بنا ڈالتے ہیں اللہ نے ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیے انتہائی کشش رکھی تاکہ وہ ایک دوسرے کی طرف راغب ہوں۔ محسن انسانیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
مجھے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں زیادہ پسند ہیں۔عورت، خوشبو اور نماز۔
میاں بیوی خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور خاندان معاشرے کی اہم و بنیادی اکائی و اولین ادارہ ہے۔ خوشگوار خاندان خوشگوار معاشرے کو جنم دیتا ہے خوشگوار شادی دنیوی جنت ہے اور ناخوشگوار شادی جہنم۔ گھر کی تعمیر کے بغیر معاشرہ کی تعمیر نہیں ہو سکتی گھریلو ز زندگی حقوق و فرائض کا مجموعہ ہے،ایک ایسا گھر جہاں کے افراد آپس میں جو حقوق و فرائض ا اور خلوص و محبت، ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھے ہوں آئیڈیل گھر کہلا تا ہے ۔تحمل، برداشت، صبر، عفو و درگزر جیسی صفات سے مزین زوجین اعلیٰ اخلاق کے حامل بن جاتے ہیں جن کی شادی…

مزید پڑھیں

مجھے تلاش ہے – بتول جون ۲۰۲۳

کہتے ہیں کبھی کوئی ایک شخص کسی کی منزل بن کر سوچوں کا محور و مرکز بن جاتا ہے ۔ماسی زلیخا میں کوئی ایسی خاص بات تو نہ تھی کہ لیس دار محلول کی طرح ہزارجتن کے باوجود ذ ہن کےپردے سے یاد مٹ کر نہ دے لیکن کچھ ایسا ضرور تھا کہ اس کی یاد محو ہوکر نہ دے رہی تھی ۔
میری پہلی ملاقات جب ہوئی تھی تب میرا تیسرا بچہ کم وقفہ سے دنیا میں شان سے آچکا تھا ۔کچی عمر میں امی نے شادی کر دی تھی ۔پہلوٹھی کی لڑکی ربیعہ فطرتاً ضدی تھی ہمہ وقت وہ میرے پلو سے چپکی رہتی یا میں۔ بہر حال میں ،ربیعہ پھر تنزیل پھر صفورا کے دھندوں میں پھنسی رہتی ۔ میاں سمیت ہر قریبی فرد یک زبان یہی شکوہ کرتے نظر آتے کہ اپنے بچوں ہی کے پیچھے لگی رہتی ہو اپنے دائیں بائیں بھی دیکھ لیا کرو ۔ میرے دن رات انہی کی ناز برداری میں وقف ہوچکے تھے۔ ایسے میں ماسی زلیخا کی آمد جہاں میرے لیے بہار کا جھونکا ثابت ہوئی وہیں میاں سمیت گھر والوں نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔
زلیخامحنتی تھی۔سندھی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتی تھی۔ کام بھی کبھی نہیں…

مزید پڑھیں

منزل ہے کہاں تیری – بتول جولائی ۲۰۲۱

’’کیا ہؤا تم کو۔۔۔ ۔ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئیں؟‘‘ عمارہ نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ امی ! میں یہ کپڑے نہیں پہنوں گی۔‘‘
’’یا اللہ اب کیا خناس سمایا ہے تم میں، کیوں نہیں پہنوگی؟ بابا تیار ہوچکے ہیں، دیر ہو رہی ہے، مجھے باتیں سنواؤگی، مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔ تمہاری ہی تو پسند کا کلر ہے؟‘‘ جھنجھلائی ہوئی عمارہ نے ہاتھ پکڑ کر ہالہ کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’فوراً یہ کپڑے پہنو اور تیار ہوجائو، میں یہیں کھڑی ہوں۔‘‘
’’جب میں نے کہہ دیا کہ میرے لیے بغیر آستین کی قمیص نہ سلوایا کریں مجھے نہیں پہننی تو کیوں سلوائی آپ نے، نہیں جانا مجھے۔۔۔۔ آپ لوگ جائیں۔‘‘ بارہ سالہ ہالہ نے ضدی لہجے میں کہا۔
ارے تو تم کو کس کے پاس چھوڑ کر جاؤں گی، اور پھر وہاں تمہاری دادی کو کیا جواب دوں گی کہ کیوں نہیں لائیں بچی کو، کس کے پاس چھوڑ آئی ہو، چاچا کے گھر کی شادی اور تمہارا یہ عین وقت پر نیا ڈرامہ۔ اب سیدھی طرح پانچ منٹ میں تیار ہوکر باہر آجاؤ ورنہ تم جانتی ہو، میرا ہاتھ اٹھ جائے گا تم پر، جان عذاب میں آگئی، پینٹ نہیں پہننی، ٹی شرٹ نہیں پہنو گی، اب یہ اسٹائلش قمیص شلوار سلوایا تو اس…

مزید پڑھیں