خراج – شہلاخضر
شام ڈھلنے کو تھی۔نوری کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔بات ہی پریشانی کی تھی۔
بالا سویرے سے نکلا اب تک نہ لوٹا تھا۔وہ کبھی اتنی دیر گھر سے باہر اکیلا نہ رہا تھا ۔
سویرے اس کا جھگڑا نذیرے سے ہو&ٔا تھا۔بات تو معمولی سی تھی پر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ۔بالے کو اماں کے ہاتھ کے پکے گڑ والے چاول بےحد پسند تھے ۔پچھلی رات نذیرے نے اپنے حصے کے چاول نعمت خانے میں رکھے تاکہ سویرے کام پر ساتھ لے جائے پر بالا بھوک لگنے پر رات کے کسی پہر سارے چٹ کر گیا۔بس اس بات پر نذیرے کو تو پتنگے لگ گئے ، مار مار کر بالے کا چہرہ سجا دیا۔
کہنے کو تو نذیرا عمر میں بالے سے پورے تین سال چھوٹا تھا ، پر بالے کو اس نے کبھی بڑا بھائی نہ سمجھا۔بات بے بات جھڑکنا اور حقارت آمیز سلوک کرنا ہر دم کا وطیرہ تھا۔
باپ کے مرنے کے بعد سے نذیرا ہی گھر کا کل مختار تھا۔باپ کی طرح مزدوری کر کےوہ سب کے پیٹ پال رہا تھا ۔جہاں تک بالے کا معاملہ تھا تو وہ تو سدا کا اللہ لوک اور سادھو سا تھا۔پیداہو&ٔا تو تب سے ہی ماں باپ کے لیے آزمائش بن…