انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیار دو – بتول جون ۲۰۲۳
کوئی دارو تو اس مرضِ کہن کا بھی خدارا دو جو خدمت گار کا حق ہے، اسی کو حق وہ سارا دو غلام اب ہے کوئی، کوئی نہ آقا اب کسی کا ہے انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیارا دو جہالت، درد، غربت کی نہ چکی پیس دے ان کو اخوت، عدل، شفقت اور محبت کا نظارا دو سفینہ ڈوبنے پائے نہ ان مجبور لوگوں کا انہیں طوفان سے لڑنے کو چپو دو، کنارا دو علوم و فن کے جوہر سے انہیں بھی آشنا کر دو پلٹ دو روز و شب ان کے، اک ایسا استعارا دو پڑھاؤ نونہالوں کو، جگاؤ نوجوانوں کو جہادِروزوشب میں آگے بڑھنے کو سہارا دو پلٹ دیں گے زمانے کو، یہ ایسا عزم رکھتے ہیں بس ان کو اپنا جوہر آزمانے کا اشارا دو اٹھاؤ خاک سے ان کو، بناؤ سیرتیں ایسی کوئی خالد، کوئی غزنی، سکندر اور دارا دو ادا سیکھیں جہاں