شاہدہ اکرام سحرؔ

انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیار دو – بتول جون ۲۰۲۳

کوئی دارو تو اس مرضِ کہن کا بھی خدارا دو جو خدمت گار کا حق ہے، اسی کو حق وہ سارا دو غلام اب ہے کوئی، کوئی نہ آقا اب کسی کا ہے انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیارا دو جہالت، درد، غربت کی نہ چکی پیس دے ان کو اخوت، عدل، شفقت اور محبت کا نظارا دو سفینہ ڈوبنے پائے نہ ان مجبور لوگوں کا انہیں طوفان سے لڑنے کو چپو دو، کنارا دو علوم و فن کے جوہر سے انہیں بھی آشنا کر دو پلٹ دو روز و شب ان کے، اک ایسا استعارا دو پڑھاؤ نونہالوں کو، جگاؤ نوجوانوں کو جہادِروزوشب میں آگے بڑھنے کو سہارا دو پلٹ دیں گے زمانے کو، یہ ایسا عزم رکھتے ہیں بس ان کو اپنا جوہر آزمانے کا اشارا دو اٹھاؤ خاک سے ان کو، بناؤ سیرتیں ایسی کوئی خالد، کوئی غزنی، سکندر اور دارا دو ادا سیکھیں جہاں

مزید پڑھیں

غزل – شاہدہ اکرام سحرؔ

  یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ $ 20 / year پلان حاصل کریں ماہانہ $ 2 / month پلان حاصل کریں

مزید پڑھیں

غزل – بتول اگست ۲۰۲۱

غزل ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر ساعتیں چند اب سحر میں ہیں حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں [آمنہ رُمیصا زاہدی]   غزل آنکھیں جلتی رہتی ہیں تنہائی میں بہتی ہیں فرقت کے غم سارے یہ چپکے چپکے سہتی ہیں چاہت کے سب افسانے تاروں سے یہ کہتی ہیں ملن کی آس میںراہوں کو ہر دم تکتی رہتی ہیں یادوں کے موتی انمول دامن میں یہ بھرتی ہیں فلک تلک جو جاتا ہے اُس رستے کو تکتی ہیں جو تقدیر کا مالک ہے اس کی رضا میں راضی ہیں شاہدہ اکرام سحرؔ

مزید پڑھیں