شاہدہ اکرام سحرؔ

انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیار دو – بتول جون ۲۰۲۳

کوئی دارو تو اس مرضِ کہن کا بھی خدارا دو
جو خدمت گار کا حق ہے، اسی کو حق وہ سارا دو
غلام اب ہے کوئی، کوئی نہ آقا اب کسی کا ہے
انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیارا دو
جہالت، درد، غربت کی نہ چکی پیس دے ان کو
اخوت، عدل، شفقت اور محبت کا نظارا دو
سفینہ ڈوبنے پائے نہ ان مجبور لوگوں کا
انہیں طوفان سے لڑنے کو چپو دو، کنارا دو
علوم و فن کے جوہر سے انہیں بھی آشنا کر دو
پلٹ دو روز و شب ان کے، اک ایسا استعارا دو
پڑھاؤ نونہالوں کو، جگاؤ نوجوانوں کو
جہادِروزوشب میں آگے بڑھنے کو سہارا دو
پلٹ دیں گے زمانے کو، یہ ایسا عزم رکھتے ہیں
بس ان کو اپنا جوہر آزمانے کا اشارا دو
اٹھاؤ خاک سے ان کو، بناؤ سیرتیں ایسی
کوئی خالد، کوئی غزنی، سکندر اور دارا دو
ادا سیکھیں جہاں میں سر اٹھا کر آگے بڑھنے کی
جہاں میں دوسروں جیسا انہیں درجہ خدارا دو
وطن کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہیرے ہیں یہ موتی ہیں
نہ بے قیمت سمجھ کر ان کو جینے میں خسارا دو
یہ کہسارِ عزیمت ہیں، جھکے شانوں پہ مت جانا
زماں کی تلخیوں میں بس محبت کا سہارا دو
سحرؔ کا عکس ان ویران آنکھوں سے جھلکتا ہے
شبِ تاریک کو رخصت کرو، روشن ستارا دو

مزید پڑھیں

غزل – شاہدہ اکرام سحرؔ

امیدِ صبحِ بہار رکھنا
سدا گلوں پہ نکھار رکھنا
بُھلا کے رکھنا خزاں کا موسم
بہار یوں ذی وقار رکھنا

سہانی رُت ہے اب آنے والی
یہ زرد پتے اتار رکھنا
اچھلتی موجیں سمندروں میں
یونہی دلِ بےقرار رکھنا

چھلکنے پائے نہ چشمِ پُرنم
چھپا کے غم صد ہزار رکھنا
اداس موسم کے رتجگوں میں
نئی رتوں کا خمار رکھنا

کبھی تو آئے گا لوٹ کر وہ
ہر آن یہ اعتبار رکھنا
جدا نہ ہوں گے یہ سوچ لینا
نہ پھر دنوں کا شمار رکھنا

فلک کو چھونا ہے،سو ہے لازم
طویل اک انتظار رکھنا
ستاروں پر ڈالنی ہے آخر
کمند اپنی سنوار رکھنا

نہ قافلہ چھوٹ جائے اپنا
نگاہ کو ہوشیار رکھنا
تلاشنا نقشِ پائے محبوبٌ
جبیں وہاں بار بار رکھنا
سحرؔ جو لائی ہے گُل کی خوشبو
اسے نفس میں اتار رکھنا

مزید پڑھیں

ساون کا گیت – شاہدہ اکرام سحر

ساون آیا، برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
ڈالی ڈالی کوکے کوئل، کیا یہ سندیسہ لائی ہے
سکھیوں نے ڈالیں پینگیں اور اُڑیں فلک کو چھونے
رنگ برنگے آنچل بکھرے، قوس ِ قزح سی چھائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
پیار کا موسم آ پہنچا، ہے ساون کا پیغام یہی
ٹپ ٹپ گرتی بوندوں نے تیری ہی یاد جگائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
ایک تو برکھا برسے باہر، اور اک برسے آنکھوں سے
مل کر دونوں ایسا حشر اٹھائیں بس کہ دہائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
سحر تلک تھم جائے گا پانی، ابر بھی چھٹ ہی جائے گا
موسم اور میں، دونوں نے ہی وفا کی ریت نبھائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے

مزید پڑھیں

بارش کا گیت – شاہدہ اکرام سحرؔ

گھنگھور گھٹاؤں نے پیغام سنایا ہے
ہر دل کو لبھانے کا موسم یہ آیا ہے
گونجے ہے جہاں سارا اک شوقِ نوا سے اب
مرغانِ چمن نے بھی کیا رنگ جمایا ہے
من بھر گیا خوشیوں سے، غم دور ہوئے سارے
امیدِ وصل کا اک سندیسہ لایا ہے
رم جھم ہے بوندوں کی، دل پر بھی گرتی ہیں
آنکھوں میں بھی گویا کہ اک ابر سا چھایا ہے
یاں برکھا، واں من میں سیلاب سا اترا ہے
اک شور عجب مل کر دونوں نے مچایا ہے
اے کاش سدا یونہی، ہر جا چٹکیں غنچے
مہکائے جگ ہر سو، یہ گیت جو گایا ہے

مزید پڑھیں

غزل – بتول اگست ۲۰۲۱

غزل
ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں
ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں
حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں
وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں
بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ
سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں
غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر
ساعتیں چند اب سحر میں ہیں
حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی
قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں
[آمنہ رُمیصا زاہدی]
 
غزل
آنکھیں جلتی رہتی ہیں
تنہائی میں بہتی ہیں
فرقت کے غم سارے یہ
چپکے چپکے سہتی ہیں
چاہت کے سب افسانے
تاروں سے یہ کہتی ہیں
ملن کی آس میںراہوں کو
ہر دم تکتی رہتی ہیں
یادوں کے موتی انمول
دامن میں یہ بھرتی ہیں
فلک تلک جو جاتا ہے
اُس رستے کو تکتی ہیں
جو تقدیر کا مالک ہے
اس کی رضا میں راضی ہیں
شاہدہ اکرام سحرؔ

مزید پڑھیں