سید ابوالحسن

جنگی قیدی کی آپ بیتی(6) – بتول جولائی ۲۰۲۱

میرٹھ کینٹ میں چائے کاکپ پی کر سب قیدی سستانے لگے تھے۔ کافی دنوں کے انتہائی تکلیف دہ سفر کے بعد یہ چائے کا ایک کپ اُن کے لیے گویا ایک راحت اور سکون کا باعث تھا۔ ہمیں چٹا گانگ بنگلہ دیش ( سابقہ مشرقی پاکستان ) کی بندر گاہ سے کلکتہ (بھارت) بندرگاہ تک بھیڑ بکریوں کی طرح ایک کارگو جہاز میں لا د کر لایاگیاتھا۔ وہاں سے ٹرین کے ذریعے میرٹھ پہنچایاگیا جس میں مزید تین سے چار دن لگ گئے تھے۔ ابھی ہم سب چائے پی کر تھوڑا سستانے لگے تھے کہ حکم ہؤاکہ سب لائنوں میں کھڑے ہوجاؤ۔ چار و ناچار سب لائنوں میں کھڑے ہوگئے۔ بھارتی فوجیوں نے تعدادپوری کرنے کے لیے کئی بار گنتی کی پھر جا کر انھیں تسلی ہوئی کہ نفری پوری ہے۔ میرٹھ چھاؤنی کے کیمپوں میں میرٹھ کینٹ برصغیر میں برٹش انڈیا دور کی ایک بہت بڑی چھاؤنی ہے۔ اس

مزید پڑھیں

جنگی قیدی کی آپ بیتی(آخری قسط) – بتول اگست ۲۰۲۱

ابوکو میں نے اپنی یہ تمام سرگزشت سنائی جو انہوں نے بہت توجہ سے سنی اور اس دوران مسلسل اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اُن کے لیے یہ ساری صورت حال ناقابل برداشت تھی ۔ میں نے بات ختم کرنے کی کوشش کی مگریہ اذیت کی داستان، ہند و بنیے کی دھوکہ دہی اور مکاری کا قصہ یہاں ختم ہو جائے ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ میرے خاموش ہونے سے یہ ایک حقیقت اور ان کی سیاہ تاریخ بدل تو نہیں سکتی تھی۔ ابو بھی کہنے لگے کہ جنگ آزادی میں بھی ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو دھوکہ دہی کی، تاریخ آج بھی اس کی گواہ ہے۔ ۱۸۵۷ء میں میرٹھ کینٹ (جہاں مسلمان قید تھے) سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی تحریک میں مسلمان بہت بہادری سے لڑے تھے۔ اس تحریک میں ہندوؤں نے انگریزوں کاساتھ دے کر مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا مگر مسلمانوں کی

مزید پڑھیں