سعدیہ نعمان

بتول میگزین – بتول جون ۲۰۲۳

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
سعدیہ نعمان
ہمارے ارد گرد ایسے کردار موجود ہوتے ہیں جو کسی کی نظر میں بھی اتنے اہم نہیں ہوتے اور دراصل وہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں وہ اپنے حصے کا بوجھ بہت ذمہ داری سے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کی قدر جان کر ان کی حوصلہ افزائی کر یں معاشرے میں مجموعی طور پہ پھیلتی مایوسی میں وہ امید کی کرن ہیں ایسے ہی کچھ کرداروں سے آج میں آپ کو ملوانا چاہوں گی۔
یہ حفیظ انکل رکشہ والے ہیں ٹھیک سات بج کے دس منٹ پہ ”چلو جی ی ی صاب جی ی ی‘‘ کی گرجدار آواز کے ساتھ وہ گیٹ پہ موجود ہوتے اور بچے کبھی سکول سے لیٹ نہ ہوتے وہ پورے ٹاؤن کے حفیظ انکل ہیں ان کا دن صبح فجر کی با جماعت نماز سے شروع ہوتا ہے اور رات دس بجے تک مسلسل وہ سکول کالج اور اکیڈمی کے بچوں کو چھوڑتے ہیں ریٹا یر فوجی ھونے کی وجہ سے وقت کے اتنے پابند ہیں کہ دو منٹ پہلے تو آ سکتے ہیں دو سیکنڈ دیر سے نہیں سردی گرمی کے شدید موسموں میں جب وہ رکشہ میں بچوں کو بحفا ظت لے جا رہے ہوتے…

مزید پڑھیں

وہ کامنی سی چھوکری – بتول جون ۲۰۲۳

داخلی دروازے کی گھنٹی بجی ۔گرمیوں کی دوپہر میں عام طور پہ یہ وقت آرام کا ہوتا ہے۔
اس وقت کون آ گیا؟میں نے کی ہول سے جھانکاسیاہ برقعہ میں ملبوس ایک درمیانی سی عمر کی خاتون اور ساتھ چادر میں لپٹی ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔
’’جی کس سے ملنا ہے؟‘‘
’’خالہ جی ہیں ؟ ‘‘انہی سے ملنا ہے پتہ چلا تھا کہ صفائی کے لیے انہیں کام والی کی ضرورت ہے۔
تسلی کے بعد میں نے دروازہ کھول دیا۔انہیں بٹھا کے میں امی کو بلا لائی۔
خالہ جی ہم کام والیاں نہیں ہیں عزت دار لوگ ہیں۔بڑی مجبوری میں آئے ہیں آپ مہربانی کریں ۔بڑا خاندان ہے اب گزارا مشکل ہو رہا ہے ۔
نظریں جھکائے وہ جھجکتے ہوئے کہہ رہی تھی –
سانولی سلونی سی چہرہ قدرے گولائی لیے ہوئے، درمیانہ قدو قامت ،محنت اور معصومیت کا امتزاج ،آنکھوں میں ایک خاص چمک،گفتگو میں تہذیب کا عنصر نمایاں۔
یہ سلمیٰٰ تھی،جو اپنی نوعمر بیٹی اور نند کے ساتھ اگلے دن سے ہی کام پہ آنے لگی۔
خاموشی سے آتی۔ برقعہ اتار کے کھونٹی پہ لٹکاتی۔ توجہ اور ایمانداری سے کام کرتی اور سلام کر کے واپس چلی جاتی۔
اس کی چودہ پندرہ سالہ بیٹی اور اٹھارہ انیس سالہ نند کام کے دوران البتہ خوب باتیں کرتیں ۔کبھی…

مزید پڑھیں