منتخب افسانہ – متبادل راستہ – خالدہ حسین
اب میں واقعی پشیمان ہو رہا تھا۔
اورپشیمانی عجب تجربہ ہے ۔ کہیںاندر ہی اندر آدمی اپنے آپ کو ڈوبتے دیکھتا ہے ، اس وقت بھی مجھے اپنے کان بند ہوتے محسوس ہوئے ، جیسے گہرے پانی میں غوطہ لگا دیا ہو۔ مجھے اپنے آپ پر حیرت کے ساتھ ساتھ بے حد افسوس بھی ہونے لگا کہ آخر میں نے یہ سب کچھ کیوں کیا۔
وہ بڑے مزے سے میرے برابر کی سیٹ پر اپنے جملہ ساز و سامان کے ساتھ براجمان تھی۔ گاڑی کے کھلے شیشے میںسے اس کا مووی کیمرہ معلوم نہیں کیا کچھ فلم بند کرتا چلا جا رہا تھا ۔ اچانک گاڑی ایک کھڈے سے بچتی بچاتی دوسرے میں گر کر اچھلی اور سامنے وہ نابکار پتھر معلوم نہیں کہا سے آگیا ۔
’’ سوری‘‘ میں نے معلوم نہیں کتنویں بار کہا اور وہ پھر اُتنویں ہی بار اپنے پتلے پتلے لکیر نما ہونٹوں میں مسکرا دی ۔ وہ مسکراہٹ بھی نہ تھی ۔ عجب آسیبی جنبش تھی ۔ کیونکہ اس وقت وہ باہر کے دھول مٹی اَٹے مناظر فلمانے میں مصروف تھی ۔ اس لیے میں نے اسے غور سے دیکھنے کی مہلت پا لی ۔ گو سچی بات تو یہ ہے کہ اس کو اپنے اتنے قریب…