حمیرا بنت فرید

عمر پر کیا گزری؟ – نوردسمبر ۲۰۲۰

کمرے میں ایک نوجوان اور پیاری سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔
’’ اگر ملازموں کا رویہ آپ کے ساتھ نا مناسب رہا ہے تو میں اس کی معافی چاہتی ہوں ۔ مجھے بتائیے ، آپ مجھ سے کس سلسلے میں ملنا چاہ رہی تھیں ؟‘‘ رابعہ نے شیریں لہجے میں کہا۔
نینا سے کبھی بھی کسی نے اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی ، اسے تلخ لہجوں کی عادت تھی اس کا دل بھر آیا اور وہ روپڑی۔ اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ۔
’’ پیاری خاتون ۔ کاش سب لوگ آپ جیسے ہوتے ،لیکن شاید آپ بھی مجھ سے اس طرح بات نہ کریں ، جب آپ کو میرے بارے میں علم ہو گا ۔ شاید آپ کے علم میں ہو جب عمر کو زبردستی کھینچ کر دوبارہ گرہ کٹوں کے درمیان پہنچا دیا گیا تھا ؟ جب وہ کتابوں کی دکان میں تھا ؟ میں ہی وہ لڑکی تھی جس نے ایسا کیا ؟‘‘
’’ تم نے ؟‘‘ رابعہ چیخی۔
’’ ہاں ، میں ہی وہ گناہ گار لڑکی ہوں ۔ میں بچپن سے ہی چوروں کے درمیان پلی بڑھی ہوں ۔ میں نے اس سے مختلف کوئی زندگی نہیں دیکھی۔ ‘‘ نینا نے اداسی سے کہا۔
’’ مجھے بہت افسوس…

مزید پڑھیں

قدرت – حمیرا بنت فرید

نقاہت زدہ وجود میں تھوڑی سی حرارت وقوت محسوس ہونے پر اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’ممی ابھی لیٹی رہیں‘‘، لائبہ نے گرم سوپ کا آخری چمچہ ان کے منہ میں دیتے ہوئے کہا۔
’’الحمدللہ اب تو طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی ہے بیٹا‘‘، نازیہ نے کہا۔
’’اللّہ کا شکر احسان ہے۔ میرا خیال ہے آپ تھوڑی دیر سو جائیں، پھر عصر تک اٹھ جائیے گا‘‘،لائبہ ان کا کمبل درست کرتے ہوئے بولی’’میں بھی اتنی دیر اپنا اسائنمنٹ پورا کر لوں‘‘لائبہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو نازیہ نے مسکرا کر جیسے اسے اجازت دی۔
ایک ہفتے کی علالت کے بعد وہ رات کو ہی ہسپتال سے گھر آئی تھیں لیکن شدید کمزوری نے انہیں اٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور کیا ہؤا تھا۔ اس عرصے میں لائبہ نے جس جانفشانی سے دن رات ان کی خدمت کی تھی، وہ اس کی احسان مند تھیں۔ ان کے کھلانے ، پلانے، دوائی اور دوسری ضروریات کا لائبہ نے ہی خیال کیا تھا تب جا کے ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ آیا تھا۔
لیٹے لیٹے نازیہ کچھ اکتا سی گئی تھیں، انھوں نے اپنے کمزور و ناتواں جسم کو کھینچتے ہوئے بیٹھنے کی کوشش کی۔ دکھتی کمر کو بستر کا سہارا دیتے ہوئے انہوں نے اپنا…

مزید پڑھیں

ساون رُت – بتول اگست ۲۰۲۱

’’ بہت بہت شکریہ سر !‘‘ عامر صاحب سے رقم لیتے ہوئے اصغر کے چہرے پر بے انتہا شکر تھا ۔’’ بڑی مہر بانی ۔‘‘
’’ لیکن اصغر ، قرضے کی واپسی ہر ماہ آپ کی تنخواہ میں سے بیس فیصد کٹوتی کی صورت میں ہو گی‘‘ عامر صاحب نے یاد دہانی کرائی۔
’’ جی سر مجھے علم ہے ‘‘ اصغر سلام کرتا ہؤا کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
’’ شکر ہے شائستہ ، اللہ نے بڑا کرم کیا ‘‘اصغر نے رات کو بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا ۔ گو کہ ہر مہینے کا آخر دونوں میاں بیوی کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا اور تنخواہ کی کٹوتی ان مشکلات میں اضافہ ہی کرنے والی تھی لیکن ایسے وقت میں جب کہ بیٹی کی شادی سر پر تھی ، رقم کا انتظام ہو جانا ، اس وقت بہت غنیمت لگ رہا تھا۔
’’ میں کل ہی جا کے فرنیچر کا آرڈر دے آتا ہوں ‘‘ اصغر نے شائستہ سے اپنے فیصلے کی تائید چاہی۔
’’ ہاں بالکل۔ اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ‘‘شائستہ نے ہاتھ سے چادر ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
کمرے کے باہر کھڑی ، ماں باپ کی باتیںسنتی شیبا کے چہرے پر قوس و قزاح کے رنگ بکھر گئے ۔ شادی…

مزید پڑھیں