بند دروازہ – بتول اگست ۲۰۲۱
ستّر کی دہائی میں لکھا گیا افسانہ جو جدیدیت کے ہاتھوں تہذیبی کشمکش کا شکار ہوتے مشرقی معاشروں میں ہمیشہ ترو تازہ رہے گا
’’دلی جا کرکہیں اپنے ہوش و حواس نہ کھو بیٹھنا‘‘
یہ بات چھوٹی سے پیارے نے کوئی دسویں بار کہی تھی۔
جیسے چھوٹی بالکل ہی سرن دیوانی ہے ۔ وہ خود شہر نہ گئی تو کیا ہؤا، اس کی دو سہیلیاں شہر میں بیاہی گئی تھیں ۔ جب وہ میکے سے لوٹیں تو چھوٹی کی قابلیت میں شدید اضافہ ہؤا تھا ۔ ان کی نقل میں چھوٹی بھی کمر پر سے قمیض کو تنگ کرنے لگی تھی اور خورجے کے میلے سے پیارے اس کے لیے ناخن رنگنے کا رنگ لایا تھا جنہیںناخنوں پر لگانے کے بعد چھوٹی کی انگلیاں چم چم چمکنے لگی تھیں۔
وہ بسولی کی فیشن ایبل بہو کہلاتی تھی جو ہمیشہ پنڈلیوں پر منڈھا ہؤا چست پاجامہ پہنتی تھی ۔مِسّی کی بجائے لاکھا جماتی اور شہر والیوں کے انداز میں آڑی مانگ نکال کر بال کانوں تک نیچے گرا دیتی تھی ایسے بال پیارے نے ایک پرانے فلمی رسالے میں مس لیلاچٹنس کے دیکھے تھے اور فوراً اس نے یہ ہیئر سٹائل چھوٹی کو دکھایا تھا ۔
چھوٹی لیلا چٹنس سے کیا کم تھی !وہ تو کھلا…