تہمینہ عثمان

غزل – بتول اگست ۲۰۲۲ – تہمینہ عثمان

وہ ملا تو ایسا تھا اجنبی کہ کبھی تھا جیسے ملا نہیں کوئی بات اس نے کہی نہیں کوئی قول اس نے دیا نہیں نہ سوال تھا ، نہ جواب تھا ، نہ نگاہ میں کوئی بات ہی تھی جو دل کی دل ہی میں رہ گئی جو کہا تو اس نے سُنا نہیں یہ وہی نویدِ بہار ہے جو تری نظر کا حجاب تھی جو ہے رائیگاں تری جستجو یہ مری نظر کی خطا نہیں یہ ہے اور بات بچھڑ کے تم کسی اور سمت چلے گئے کبھی ساتھ ساتھ چلے تھے ہم یہ خیال دل سے گیا نہیں یہ گئے دنوں کا ہے تذکرہ کہ جوکہہ دیا سو وہ کر دیا ہے روش یہ دورِ جدید کی جوکہا کبھی وہ کیا نہیں یہ جہاں ہے عالمِ کشمکش کہیںدار ہے کہیں تاج ہے جو فرازِ دار سے ڈر گیا اسے تاج و تخت ملا نہیں میں بھٹک کے آپ

مزید پڑھیں