ہلکا پھلکا – حیدرآبادی چٹکلے – آمنہ رمیصا زاہدی
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
غزل ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر ساعتیں چند اب سحر میں ہیں حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں [آمنہ رُمیصا زاہدی] غزل آنکھیں جلتی رہتی ہیں تنہائی میں بہتی ہیں فرقت کے غم سارے یہ چپکے چپکے سہتی ہیں چاہت کے سب افسانے تاروں سے یہ کہتی ہیں ملن کی آس میںراہوں کو ہر دم تکتی رہتی ہیں یادوں کے موتی انمول دامن میں یہ بھرتی ہیں فلک تلک جو جاتا ہے اُس رستے کو تکتی ہیں جو تقدیر کا مالک ہے اس کی رضا میں راضی ہیں شاہدہ اکرام سحرؔ