آمنہ رُمیصا زاہدی

ہلکا پھلکا – حیدرآبادی چٹکلے – آمنہ رمیصا زاہدی

حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں ایک یہ بھی تھا کہ یہاں آتے ہی لوگ ان کا شین قاف درست کروانے میں جت گئے۔ متاثرین میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا۔
سکول میں ہماری بلند خوانی پر دبی دبی ہنسی سنائی دیتی تھی اور ہماری چھوٹی بہن سے تو سہیلیاں فرمائش کرتیں کہ بولو’’قرطبہ کا قاضی‘‘ اور وہ جھوم کے کہتی’’خرطبہ کا خاضی‘‘ تو سب کے کھلکھلا نے کی وجہ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن چونکہ بچپن سے بغیر کسی وجہ کے خوش رہنے کی عادت ہے تو وجہ تلاش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہماری ایک دوست کہتی بولو’’کائد اعظم‘‘، دو نکتوں والی بڑی کاف سے ’’کائد اعظم‘‘ اور ہم کہتے کیوں؟ جب ہمیں پتہ ہے کہ خائد اعظم ہوتا ہے تو کیوں کائد اعظم بولیں. وہ جھلا کے کہتی نہیں کائد اعظم …. کائد اعظم…. مگر جناب ہمیں اپنے حق پر ہونے کا اتنا یقین تھا کہ ہم بڑی خوداعتمادی سے کہتے خائد اعظم…. خائد اعظم! اور دل ہی دل میں ان معصوموں کی حالت پر ترس کھا رہے ہوتے تھے کہ ان لوگوں کو کتنی شرمندگی ہوگی جب صحیح تلفظ…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اگست ۲۰۲۱

غزل
ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں
ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں
حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں
وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں
بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ
سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں
غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر
ساعتیں چند اب سحر میں ہیں
حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی
قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں
[آمنہ رُمیصا زاہدی]
 
غزل
آنکھیں جلتی رہتی ہیں
تنہائی میں بہتی ہیں
فرقت کے غم سارے یہ
چپکے چپکے سہتی ہیں
چاہت کے سب افسانے
تاروں سے یہ کہتی ہیں
ملن کی آس میںراہوں کو
ہر دم تکتی رہتی ہیں
یادوں کے موتی انمول
دامن میں یہ بھرتی ہیں
فلک تلک جو جاتا ہے
اُس رستے کو تکتی ہیں
جو تقدیر کا مالک ہے
اس کی رضا میں راضی ہیں
شاہدہ اکرام سحرؔ

مزید پڑھیں