اسامہ ضیاء بسمل

غزل – بتول فروری ۲۰۲۱

غزل
تری گلی سے جڑے راستے ہزاروں ہیں
قدم قدم پہ مگر مسئلے ہزاروں ہیں
بدل بدل کے مجھے عکس کیا دکھاتا ہے
مرے ضمیر ترے آئینے ہزاروں ہیں
نفیس کوچہ و بازار ہیں تو کیا حاصل
سفر سے پاؤں میں جو آبلے ہزاروں ہیں
یہ ایک دن تو مرے واسطے بہت کم ہے
کہ دن تو ایک ہے اور مسئلے ہزاروں ہیں
ادا شناس تھے پہلی نظر میں جان گئے
بہانے سوچ کے رکھے ہوئے ہزاروں ہیں
قبائے چاک ہوں لیکن وفا کی بستی میں
وہ مرتبہ ہے کہ میرے لیے ہزاروں ہیں
نہیں ہے شاملِ محفل اگرچہ تو بسملؔ
زباں زباں پہ ترے تذکرے ہزاروں ہیں
اسامہ ضیاء بسمل

مزید پڑھیں

غزل- بتول جون ۲۰۲۱

غزل
مسئلہ کوئی بھی ہو حل بڑے آرام سے ہو
کام ہر فرد کو اپنے ہی اگر کام سے ہو
تذکرہ تیری جفاؤں کا بھی لازم ٹھہرا
غم کے ماروں کو دلاسہ مرے انجام سے ہو
عقل ہر درد کا احساس کہاں کرتی ہے
روح انجان اگر اپنے ہی اندام سے ہو
ضبط ایسا ہے کہ ہر صبح فراموش کروں
حوصلہ یہ ہے کہ ہر شام ترے نام سے ہو
بات کرتے ہیں بہت سوچ سمجھ کر جیسے
رابطہ اُن کے خیالات کا الہام سے ہو
(اسامہ ضیاء بسمل)
 
غزل
ہو وقت کڑا ڈھال بھی تلوار بھی ہم ہیں
ٹل جائے تو دہشت گر و غدار بھی ہم ہیں
جب دیس پکارے تو ہتھیلی پہ رکھیں سر
اور لائقِ تعزیر و سزاوار بھی ہم ہیں
موقع ہو تو چھوڑیں کوئی مردار نہ زندہ
کہنے کو بڑے صاحبِ کردار بھی ہم ہیں
ہے جس میں مہک آج بھی پُرکھوں کے لہو کی
اس گھر کے شکستہ در و دیوار بھی ہم ہیں
یاروں کیلئے ریشم و کمخاب ہیں لیکن
دشمن کیلئے حیدرِ کرار بھی ہم ہیں
اے آسماں اب تیری ضرورت ہی رہی کیا
اپنے ہی اگر در پئے آزار بھی ہم ہیں
اب عشق مفادات کا تابع ہوا یعنی
اقرار بھی ہم ہیں کبھی انکار بھی ہم ہیں
ہے سلطنت کون و مکاں اپنی اسی کے
ہم تخت بھی ہم تاج بھی دربار بھی ہم ہیں
جرأت ہے کسی…

مزید پڑھیں

غزل-بتول اپریل ۲۰۲۱

بڑی پرخار ہیں راہیں مگر دامن بچانا ہے
کہ میر کارواں ہوں میںمجھے رستہ بنانا ہے
نگاہوں کو جھکا رہنے دوں عصمت کا تقاضا ہے
کہ ان کا کام تو ہر دن نئے سپنے سجانا ہے
زمانے کی نگاہیں ہیں بہت بےباک اے ساتھی
سنبھل کر چل اگر خود کو نگاہوں سے بچانا ہے
کبھی لگتا ہے تنہا ہوں اور اک عالم اکٹھا ہے
کوئی اپنا ملے جس کو کہ حال غم سنانا ہے
جگر چھلنی ہے اپنوں نےچلایا تیر کچھ ایسے
ہمیں بھی ضد ہے ہونٹوں پر تبسم کو سجاناہے
 

 
غزل
قیامت کا منظر دکھائی دیا ہے
ہمیں ایسا اکثر دکھائی دیا ہے
وہ کہتے ہیں جس کو فقط دوستی ہے
کوئی اور چکر دکھائی دیا ہے
یہ چٹھی ترے نام کی ہوگی لازم
احاطے میں پتھر دکھائی دیا ہے
سمجھتے ہیں باہر کی اوقات کیا ہے
جنہیں من کے اندر دکھائی دیا ہے
بتایا گیا ہے فلک بے کراں ہے
اور انسان محور دکھائی دیا ہے
حقیقت بتائی ہے اتنا جھجکتے
بہانے کا عنصر دکھائی دیا ہے
اترتے ہوئے جھیل آنکھوں کے اندر
ہمیں اک سمندر دکھائی دیا ہے

مزید پڑھیں