عربی زبان کا مقولہ ہے تُعْرَفُ اْلاَ شْیَآئُ بِاَضْدَ ادِھَا’’ چیزیں اپنے متضاد سے پہچانی جاتی ہیں ‘‘۔اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کا تصور نا ممکن ہے ۔ برائی کا وجود نہ ہو تو بھلائی کی قدر پہچاننا مشکل ہے ۔ آسمان کی بلندی کا اندازہ زمین کی پستی کو دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح دھوپ چھائوں، امارت و غربت ، دنیا و آخرت ، جنت و دوزخ ۔ یہ سب ایسے الفاظ ہیں جن میں سے ہر ایک ، دوسرے کی وضاحت کرتا ہے ۔ اسلام نے انسان کو جن اخلاق کی تعلیم دی ہے وہ تمام اخلاق حسنہ ہیں ، لیکن خیر ، بھلائی اور حسنات کی صحیح قدر وہی شخص کر سکتا ہے جس نے دنیا میں شر ، برائی اورسیّئات کی قباحتوں کو بھی محسوس کیا ہو۔ اِنّ مَعَ الْعُسِْر یُسْراً۔’’ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ‘‘۔صبر کی انتہا کو پانے کے لیے بے صبری پر قابوپانا ہوگا ۔ شکر کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے نا شکری کے رویوں کو خیر باد کہنا ہوگا ۔ تقویٰ حاصل کرنے کے لیے کانٹے دار جھاڑیوں سے دامن بچانا ہوگا ۔
آج ہم سچ ( حق) کی فضیلت اور جھوٹ (باطل)…
انسان کے اخلاقِ رذیلہ ( بُرے اخلاق) میں سب سے بری اورقابل مذمت چیز کذب ( جھوٹ) ہے ۔جھوٹ ایسی برائی ہے جو فجور ، اِفک اوربہتان کی طرف لے جاتی ہے اور نہ صرف افراد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خاندان اور معاشرے میں بھی فساد برپا کرتی ہے ۔ جھوٹ ہر قسم کی قولی اورعملی برائیوں کی جڑ ہے ۔ جھوٹ کی وجہ سے اور بھی کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جو معاشرے کے لیے زہرقاتل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ’’ جھوٹے ‘‘ کے ساتھ کسی دوسری صفت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ مثلاً کاَذِبّ کَفَّارِ( جھوٹ ، کفر کرنے والا) مُسْرِفٌ کَذَّابٌ حد سے بڑھ جانے والا ، بہت جھوٹا ، افاک اثیم( جھوٹا ، گنہگار)وعدہ خلافی ، بہتان ،ریاکاری ، خاندانی جھگڑے ، معاشرتی فتنہ فساد یہ سب جھوٹ ہی کے کرشمے ہوتے ہیں ۔ جھوٹ کی ان قباحتوں کو جاننے کے باوجود ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم سے بہت سے لوگ جھوٹ کو معمولی شے سمجھتے ہیں اور شغل کے طور پر بھی جھوٹ بول جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ خود بھی سچاہے اور سچ کوپسند فرماتا ہے ۔ نبیوںکے…
نام کتاب/رسالہ : چمن بتول مدد گار نمبر
شمارہ : جون2023
قیمت : 200روپے
عملی کاوش : مخلص و باصلاحیت قلم کاروں کی ٹیم
تنظیم، ترتیب : مجلس ادارت
مرہون منت : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر
چمن بتول ( مدد گار نمبر) کی خوبصورتی ، جامعیت اور تنوع احساسِ زیاں پیدا کر رہی ہے کہ میں اس شمارے کے مصنفین میں کیوں شامل نہ ہو سکی ۔میں نے سوچا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مطالعے اور تحریر کو زیادہ ٹائم دے سکوں گی خصوصاً ’’چمن بتول‘‘ کو لیکن ایک دو سال ہی ایسا ہو سکا ۔ بعض اوقات حالات ایسی کروٹ لیتے ہیں کہ آپ کی مصروفیات یکسر بدل جاتی ہیں ۔ گھر ، شریکِ حیات اور خاندان شاید میرا زیادہ ٹائم لینے لگے ہیں بہ نسبت اپنی ذاتی دلچسپیوں کے لیکن میں اس میں بھی مطمئن رہتی ہوں کہ یہ بھی فرائض زندگی کا حصہ ہے۔ کئی لوگ ( بشمول صائمہ اسما) مجھ سے سوا ل کرتے ہیں کہ ’’ آپ بہت کم لکھتی ہیں ؟‘‘ میری کمزوری یہ ہے کہ میں تیزی سے نہ تو پڑھ سکتی ہوں اور نہ لکھ سکتی ہوں ۔کئی لوگ ایک ہی نشست میں کتاب یا رسالہ ختم کر لیتے ہیں لیکن میری تسلی نہیں ہوتی محض ورق…