نجمہ یاسمین یوسف

نعت/ غزل/ جھیل کنارے – بتول نومبر۲۰۲۰

نعت
جہانِ رنگ و نظر میں چاہے نہ پوری ہو اپنی کوئی خواہش
مگر یہ اک آرزو کہ جس کو بنا لیا حرزِ جاں محمدؐ
میں تکتے تکتے تمہارے در کو کچھ ایسے سوؤں کہ پھر نہ جاگوں
نصیب ہو جائے چشم تر کو کبھی جو وہ آستاں، محمدؐ
چراغِ دل بجھ گیا ہے شاہا بڑے اندھیرے میں گھِر گئے ہیں
بچاؤ گے کیا نہ ظلمتوں سے ہمیں نہ دو گے اماں محمدؐ
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی بھلا انہیں کوئی کیا بتائے
بنے ہوئے ہیں چمن کے قیدی تھے جن کے دونوں جہاں ،محمدؐ
تری دہائی ہے تاج والے پکار اس بد نصیب دل کو
یہ کشتہِ بختِ نارسا اب چلا ہے سوئے بتاں محمدؐ
وہی جو سرشارِ بے خودی تھے وہی جو آزادِ رنگ وبو تھے
ستم ظریفی کہ ہائے قسمت ہیں وقفِ کوئے بتاں محمدؐ
تمہاری رحمت کا اک سہارا ہے آہ درماندہ راہرو کو
کوئی ابھی تک پکارتا ہے تمہیں پسِ کارواں محمدؐ
(بنت مجتبیٰ میناؔ)
غزل
جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب
عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب
مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں
دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب
جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر
آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب
تختۂ دار تو منظور…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

غزل
جاں سے سوا عزیز دیانت قلم کی ہے
سچائی جو بھی ہے وہ امانت قلم کی ہے
طوفان بن کے اٹھتے ہیں لفظوں کے پیچ و خم
ہر موجِ فکر زندہ کرامت قلم کی ہے
الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے
بے شک خیال و جذبہ و حالات ایک ہوں
سرقہ کرے کوئی یہ اہانت قلم کی ہے
لکھا ہو سات پردوں میں چھپ کر کسی نے کچھ
سب بھید کھول دیتا ہے عادت قلم کی ہے
آزار دینے والے نہ مضموں اگر لکھیں
پائیں گے سرخروئی ضمانت قلم کی ہے
اے یاسمینؔ لوح و قلم کی ہیں برکتیں
جو کچھ بھی آج ہم ہیں عنایت قلم کی ہے

مزید پڑھیں

غزل- بتول نومبر ۲۰۲۱

سرِ شاخِ نشیمن چہچہانا اور ہے اے دل
کسی کنجِ قفس کو گھر بنانا اور ہے اے دل
ہنسی اہلِ چمن کی بھی نہایت خوب ہے لیکن
پسِ دیوارِ زنداں مسکرانا اور ہے اے دل
کسی دشمن سے پنجہ آزمائی اور ہوتی ہے
کسی کی دوستی کو آزمانا اور ہے اے دل
تعلق کے ہزاروں رنگ ہیں دنیائے ہستی کے
کسی سے عمر بھر رشتہ نبھانا اور ہے اے دل
بھری محفل میں گانا داد پانا خوب ہوتا ہے
تصور میں کسی کے گنگنانا اور ہے اے دل
نہ بن ناصح کہ رزمِ من و تو کی آزمائش میں
خودی کے ساتھ خود کو ہار جانا اور ہے اے دل
چھپا کاغذ کی نائو میں لڑکپن ملنے آتا ہے
شبِ پیری میں ساون رُت کا آنا اور ہے اے دل

مزید پڑھیں

غزل – بتول جنوری ۲۰۲۲

در تو در ، سایۂ دیوار سے ڈر لگتا ہے
اپنا ہوتے ہوئے غیروں کا نگر لگتا ہے
دن نکلتے ہی امڈ آتے ہیں کالے سائے
کسی آسیب کا اس گھر پہ اثر لگتا ہے
خون آلودہ سبھی ہاتھ ہیں دستانوں میں
اب کے اندیشہ بہ اندازِدگر لگتا ہے
اوڑھنے روز نکلتی ہے رِدا زخموں کی
زندگی تیرا تو پتھر کا جگر لگتا ہے
کب سے امید کا کشکول لیے بیٹھے ہیں
آسرا کوئی اِدھر ہے نہ اُدھر لگتا ہے
جانے کب بحرِالم کس کو کہاں لے ڈوبے
اب تو ہنستے ہوئے یہ سوچ کے ڈر لگتا ہے
کھیلوں پہنائیِ صحرا سے بگولے کی طرح
وسعتِ دشت میں کھو جائوں تو گھر لگتا ہے

مزید پڑھیں

عجب یہ خوش گمانی ہے – بتول مئی ۲۰۲۳

عجب یہ شاد مانی ہے
عجب یہ خوش گمانی ہے
ادھر والے کنارے سے
اُدھر والا کنارہ
خوب تر ہوگا
نہایت پر فضا ہوگا
نہایت خوش نما ہوگا
مگر اس خوش گمانی کو
مٹانے پر تُلا ہے دل
میں اس کو کیسے سمجھائوں
کہ ہیںسب ایک سے ساحل
سواچھا ہے کہ نائواورچپو
اس کنارے پرہی رہنے دوں
اداسی اور ویرانی کی لہروں کو
ادھر والے کنارے پر ہی
بہنے دوں
اُدھر والے کنارے کو
ابھی آباد رہنے دوں
دلِ ناشاد کو اپنے
گماں سے شاد رہنے دوں

مزید پڑھیں