نعت/ غزل/ جھیل کنارے – بتول نومبر۲۰۲۰
نعت
جہانِ رنگ و نظر میں چاہے نہ پوری ہو اپنی کوئی خواہش
مگر یہ اک آرزو کہ جس کو بنا لیا حرزِ جاں محمدؐ
میں تکتے تکتے تمہارے در کو کچھ ایسے سوؤں کہ پھر نہ جاگوں
نصیب ہو جائے چشم تر کو کبھی جو وہ آستاں، محمدؐ
چراغِ دل بجھ گیا ہے شاہا بڑے اندھیرے میں گھِر گئے ہیں
بچاؤ گے کیا نہ ظلمتوں سے ہمیں نہ دو گے اماں محمدؐ
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی بھلا انہیں کوئی کیا بتائے
بنے ہوئے ہیں چمن کے قیدی تھے جن کے دونوں جہاں ،محمدؐ
تری دہائی ہے تاج والے پکار اس بد نصیب دل کو
یہ کشتہِ بختِ نارسا اب چلا ہے سوئے بتاں محمدؐ
وہی جو سرشارِ بے خودی تھے وہی جو آزادِ رنگ وبو تھے
ستم ظریفی کہ ہائے قسمت ہیں وقفِ کوئے بتاں محمدؐ
تمہاری رحمت کا اک سہارا ہے آہ درماندہ راہرو کو
کوئی ابھی تک پکارتا ہے تمہیں پسِ کارواں محمدؐ
(بنت مجتبیٰ میناؔ)
غزل
جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب
عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب
مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں
دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب
جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر
آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب
تختۂ دار تو منظور…