مریم روشن

رستہ روشنی کا ۔ مریم روشن

کیا گھنی چھاؤں بھی کسی کی موت کا سبب بن سکتی ہے؟
منیرہ نے زمین پر گرے زرد پودے کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کیا۔ باغبانی کا شوق انہیں شروع سے ہی تھا۔ بچوں کی شادی کے بعد اس شوق کو پورا کرنے کے مواقع میسر آ گئے۔ وہ فرصت کے لمحات اپنے چھوٹے سے باغ کی دیکھ بھال میں گزارتیں۔ مستقل توجہ ، دیکھ ریکھ نے اس باغ کی شکل ہی بدل دی تھی ۔
ان کے گھر کی تعمیر کچھ اس طرح تھی کہ درمیان میں ایک چھوٹا سا لان اور اس کے گرد گھر کی عمارت بنی ہوئی تھی ۔ باہر سے دیکھو تو اندازہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ گھر کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت سا منی گارڈن ہوگا ۔ باغ کے گرد بنے کمروں اور ہال کی کسی کھڑکی سے بھی جھانکو تو نگاہیں لان میں لگے اس خوبصورت درخت پہ جم جاتیں جو موسموں کی پرواہ کیے بغیر اپنی پوری شان کے ساتھ کھڑا تھا ۔ اس کے قرمزی سبز پتوں نے چھتری کی سی شکل لے لی تھی۔ باورچی خانے اور بیٹھنے کے کمرے کا ایک ایک دروازہ اس باغیچے میں کھلتا ۔ سرخ ٹائلوں کے فرش پر بانس کی کرسیاں اور…

مزید پڑھیں

وائرس – بتول نومبر۲۰۲۰

تین بے حد فرمانبردار بیٹے ،جو دیکھتا عش عش کر اٹھتا۔
’’ واہ تربیت کرنا ہو تو نورین سے سیکھو۔لڑکوں کی پرورش کوئی آسان کام ہے۔ لیکن ماشاء اللہ ایسے نمازی ، نیک ، باادب بچے… آج کل کے دور میں تو خال خال ہی نظر آتے ہیں‘‘۔
نورین ایسے جملے سنتے ہی مسکراتے ہوئے بتاتیں کہ کس محنت سے انہوں نے بہترین ماحول فراہم کیا۔ کیسے دن رات کھپ کر پرورش کی۔کیسے اپنے خوابوں کی قربانی دی۔ وہ گردن ہلکے سے جھکا کر روہانسی آواز میں کہتیں۔
’’مجھے تو بڑے آرام سے یونیورسٹی میں لیکچرر شپ مل جاتی لیکن ہمیشہ سے ذہن میں تھا کہ ماں کو گھر میں ہونا چاہیے تو بس اپنے کئیریر پر کمپرومائز کیا۔ بیٹوں کی تربیت کی، ان کی جسمانی اور اخلاقی ضروریات کا خیال کیا ، ہوم اسکولنگ کی۔ سمجھو نہ دن کی خبر نہ رات کی۔ باقی پیسا تو آنی جانی شے ہے۔ عمر بھی گزر ہی جاتی ہے۔ بھابھی پتہ نہیں کیسی مائیں ہوتی ہیں جو دن دن بھر بچے ساس کے سپرد کرکے خود جاب پر روانہ ہو جاتی ہیں۔ کیا خاک تربیت ہوگی ایسے بچوں کی‘‘۔
وہ ادا کے ساتھ بھابھی سے کہتیں جو بے بسی سے اپنے شرارتی بچوں کی حرکتیں دیکھ…

مزید پڑھیں