محسن حیات شارف

امید کے جگنو – نور مارچ ۲۰۲۱

رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ سردیوں کے دن تھے۔ سب لوگ بستر میں گھسے نیند کے مزے لے رہے تھے۔ اچانک تابش صاحب کے گھر سے ہلکی سی آواز آئی۔ کوئی سسکیاں لےلے کر رو رہا تھا۔ تابش صاحب کے گھر میں ایک لائبریری بھی تھی۔ یہ سسکنے کی آواز وہیں سے آرہی تھی۔ سسکیاں آہستہ آہستہ اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ سب سے پہلے بوڑھے صوفے کی آنکھ کھلی۔ اس نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔
’’ارے بھائی ! کون رو رہا ہے؟‘‘ بوڑھے صوفے نے پوچھا۔ اس کا رنگ جگہ جگہ سے اڑ چکا تھا۔
’’یہ وہ خوبصورت رنگوں سے سجی پینٹنگ رو رہی ہے جو پانچ دن پہلے ہی لائی گئی تھی۔ وہ ایک کونے میں پڑی ہوئی ہے۔‘‘ میز نے سرگوشی کی۔
’’اوہ اچھا ! بھلا اسے کیا ہوگیا؟‘‘بوڑھے صوفے نے میز سے پوچھا اور پھر اونچی آواز سے پینٹنگ کو مخاطب کیا۔
’’اے پیاری پینٹنگ ! مجھے بتاؤ کہ تمہیں کس بات نے تکلیف پہنچائی ہے؟ آخر رات کے اس پہر رونے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’بس ماضی کے اچھے دن یاد آگئے تھے۔ وہ بھی کیا سہانے دن تھے۔‘‘ پینٹنگ نے سرد آہ بھری۔’’ مجھے اس ملک کے سب سے مایہ…

مزید پڑھیں

میری کہانی – نور جنوری ۲۰۲۱

’’بیٹا ! یہ جنگل کا بادشاہ شیر ہے۔‘‘میں نے یہ آواز سن کر اپنا سر اوپر اٹھایا۔ میرے سامنے ایک آدمی اپنے دو بچوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ بچوں کی آنکھوں میں تجسس اور چہروں پر دبا دبا جوش تھا۔ وہ آدمی ان سے میرا تعارف کر وا رہا تھا۔ اس کی بات سن کر میں مسکرا دیا۔ میں نے تو ساری عمر چڑیا گھر کے اس پنجرے میں گزاری تھی۔
’’یہ بہت طاقتور اور دلیر جانور ہے۔‘‘ اس آدمی نے میری مزید تعریف کی۔ بچے مجھے قریب سے دیکھنا چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے میں اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔ بھوک سے برا حال تھا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میں جالی کے قریب گیا۔ بچوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ ان کو خوش دیکھ کر میں بھی خوش ہوگیا۔ بچے تھوڑی دیر وہاں رکے اور آگے بڑھ گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں بھی بیٹھ گیا۔ زیادہ دیر کھڑے رہنے کی طاقت مجھ میں نہ تھی۔
آپ لوگ شاید اس طرح میری بات نہ سمجھ پائیں۔ میں آپ کو اپنی مکمل کہانی سناتا ہوں۔ میں افریقہ کے ایک گھنے جنگل میں پیدا ہوا تھا۔ میرے ابو جنگل کے بادشاہ تھے۔ ان کا رعب و دبدبہ پورے جنگل پر تھا۔ میں…

مزید پڑھیں