شہلا اسلام

فرضِ عین – بتول اگست ۲۰۲۴

جلدی جلدی کے شور میں بھی ہانیہ نے جاتے جاتے ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی ،کچھ رہ تو نہیں گیا! مطمئن اب بھی نہیں ہوئی تھی لیکن ساتھ مسلسل بجتی فون کال نے نے مجبور کر دیا کہ گھر سے نکل ہی جائے ۔ وقت پر پہنچنا ضروری تھا مریم کی سالگرہ تھی اور سب دوستوں نے باہر آؤٹنگ کا پلان بنایا تھا۔
اکٹھے ہونے کے لیے مقرر جگہ جب وہ پہنچی تو مریم اور منتہیٰ کے علاؤہ کوئی نہیں آیا تھا ۔اسے کوفت ہوئی لیکن یہ اچھا ٹائم تھا سیلفی بنانے اور سوشل میڈیا کی مختلف ایپس پر لگانے کا۔ باقی سب بھی اب آنا شروع ہو گئے تھے موسم کوئی اتنا اچھا تو نہیں تھا لیکن دل کا موسم اچھا ہو تو سب اچھا لگتا ہے اس لیے سب اچھا کی ہی رپورٹ تھی ، احمد حمزہ اور طارق بھی آگئے تھے۔ سب نے اپنے قیمتی وقت میں سے مریم کے لیے وقت نکال ہی لیا تھا، آخر کو چار سالوں کا ساتھ تھا۔
’’مجھے لگ نہیں رہا تھا کہ تم آؤ گے‘‘ مریم نے کئی بار کا دہرایا ہؤا جملہ دوبارہ بے یقینی سے دہرایا ،چہرے سے خوشی عیاں تھی۔
(( تم نے اصرار کیا تھا اس لیے آج…

مزید پڑھیں

یہاں کیا رکھا ہے! – شہلا اسلام

اپنے کمرے میں آ کر میں نے وقت دیکھا ۔پاکستان میں اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہوں گے ،ماما جاگی ہوئی ہوں گی میرے فون کے انتظار میں۔۔۔ ایک ٹھنڈی سانس بے اختیار میرے منہ سے نکلی، موڈ کو خوشگوار کیا ،سارے دن کی بے کلی اور کوفت کو ایک طرف رکھ کر میں نے کال ملائی ۔
وہ انتظار ہی میں تھیں ۔سلام دعا کے بعد جو پہلی خبر انہوں نےمجھے سنائی وہ حمزہ کی تھی۔ اس کا بھی باہر جانے کا ہو گیا ہے، اماں نے سادے سے انداز میں اپنی طرف سے خوشی کی خبرمجھے سنائی ۔ میری کافی عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی ۔جب میں کال کرتا تھا وہ عموماً گھر پر نہیں ہوتا تھا۔ من موجی لڑکا تھا پڑھائی میں اچھا تھا اور اب ڈاکٹر بن چکا تھا، ہاؤس جاب مکمل ہونے والی تھی اس لیے گھر والوں کی طرف سے اس کی روٹین کے حوالے سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
میں نے ان کے حسب توقع خوشی کے چند جملے بولے اور فون بند کردیا۔
یہ کال مجھے آج سے چار سال پیچھے لے گئی۔ ایک انجنئیرنگ یونیورسٹی سے اچھے نمبروں سے گریجویٹ ہونے کے بعد میرے بھی یہی خیالات تھے…

مزید پڑھیں