شمیم لودھی

اک ہاتھ جو رہتا تھا دعا کی طرح سر پہ ۔ شمیم لودھی

عوام الناس کا آنا جانا لگا رہتا تھا اُس ادارے میں ۔ مروجہ اور سرسری طریقے پر آمد و رفت جاری ہی تھی کہ یکا یک کچھ تبدیلیاں سب کی نظروں میں آگئیں مثلاً طالبات کا مرد کلرک کے کمرے تک جانا ہوتا تو اس کے دفتری میز تک پہنچ ہوتی مگر اب بیرونی کھڑکی کا صرف اتنا حصہ کٹوا کر راستہ رکھ دیا گیا جہاں طالبات کمرہ کلرک سے باہر رہ کر اپنے واجبات اورفنڈز جمع کرائیں ۔ ہوسٹل کی لڑکیاںبراہ راست گیٹ پر آکر مطلوبہ اشیا چوکیدار سے کہہ کر بازار سے منگوایا کرتیں ۔ انہیںروک دیا گیا اور حد بندی کی پابندی لگادی گئی ۔ کالج کے تمام مرد نوکروںکا داخلہ ممنوع قرار دیا جن کی رہائشی کمروں تک سیدھی رسائی تھی ۔ مجھے یعنی شمیم لودھی کو پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں طلب کیا جہاں سارا سٹاف نصف دائرے میںموجود تھا ۔ مجھے متعا رف کروانا مقصود تھا ۔ انگلش کی لیکچرار گورڈن کالج پنڈی سے تعلیم یافتہ ، فزکس کی گولڈ میڈلسٹ ، بیالوجی کی پنجاب یونیورسٹی لاہور کی سند یافتہ…..یوں سب شخصیات سے آگاہی کروائی ۔مندرجہ بالا کالج میں سب تبدیلیاں جس بڑی شخصیت کی مرہون منت تھیں وہ تھے میرے پیارے ابا جان…

مزید پڑھیں