غزل/نثری نظم: یادیں اور باتیں – بتول دسمبر ۲۰۲۰
غزل
زمانے سے بغاوت کیوں کریں ہم
ملیں، چھپ چھپ کے لیکن کیوں ملیں ہم
یہ کب لازم ہے سب، سب کو خبر ہو
دلوں کی آنکھوں آنکھوں میں کہیں ہم
تمہیں بھی شعلہ سا کر دیں تو کیسا
محبت میں اکیلے کیوں جلیں ہم
جو ڈسنا ہو ڈسیں گے سامنے سے
کسی کی آستیں میں کیوں پلیں ہم
بکھر نے سے، کلی سے پھول بن کر
کہیں اچھا تھا رہتے کونپلیں ہم
وہ سب کانٹوں سے چبھتے تلخ لہجے
بنیں شیریں جو پھولوں سا بنیں ہم
نبھانا ہے نبھانا ہی نہیں ہے
کوئی تو فیصلہ آخر کریں ہم
جو سر کرنی ہے منزل خود کریں سر
کسی کے پیچھے پیچھے کیوں چلیں ہم
تمنا ہے گلوں کا ہار بن کر
کبھی اس کے گلے سے جا لگیں ہم
جو غیرت پر کٹے کٹ جائے کیا ہے
جہاں میں سر جھکا کر کیوں جئیں ہم
حقیقت کو بتانے کے بہانے
کہیں پتلی تماشہ ہی کریں ہم
نکالیں منزلوں تک سلسلہ خود
پرائے راستوں پر کیوں چلیں ہم
حبیبؔ اندر سے کیا ہیں مت کریدیں
ہر اک الزام دنیا پر دھریں ہم
(حبیب الرحمان)
٭…٭…٭
غزل
اپنے من میں اتنا اترا، اترا جتنا جا سکتا تھا
لیکن اس دلدل کے اندر کتنا اترا جا سکتا تھا
یہ سب تو ممکن تھا جاناں خود سے بچھڑا جا سکتا تھا
لیکن تیری چاہت سے منہ کیسے پھیرا جا سکتا تھا
سارا گاؤں تیرا پاگل اور میں تنہا…