چند سکّوں کے عوض – بتول جون ۲۰۲۳
عفت نے پڑھنا شروع کیا۔لکھتا تھا۔
’’زویا چندے آفتاب و چندے ماہتاب تو ہرگز نہیںپر دلکش اور سلیقے طریقے والی ضرور ہے۔والدین بھی نجیب الطرفین ہیں‘‘۔
کچھ طنزیہ ،کچھ ناگوار سا تاثر چہرے پر بکھرا اور جیسے اندر کی ہلکی سی سٹرانڈ اس کے لہجے میں گھل کر ہونٹوں کے راستے باہر بھی آگئی۔
’’لو یہ تو جیسے اُن کا جدّی پشتی وہ گوانڈی تھاجو ایک دوسرے کے پوتڑوں تک کے بھیدی ہوتے ہیں‘‘۔
نجیب الطرفین پر دوبارہ نظریں پڑیں ۔اس بارتلخی ایک دوسرے رنگ میں باہر آئی۔
’’نہ گئی اس کی یہ بھاری بھرکم بوجھل سے الفاظ استعمال کرنے کی گندی عادت۔پوچھے کوئی مطلب بھی آتا ہے تمہیں اس کا۔ بس فضول کی علمیت بھگارنی ہے‘‘۔
’’عفت تم آگے چلو۔تبصرے بعد میں کرنا‘‘کمرے میں موجودعباس کی تیز آواز گونجی تھی۔
’’سن 1926میں گورداسپور سے زویا کا دادا اپنے بال بچوں اور بھائی کے ساتھ یہاں کیپ ٹائون آئے تھے۔زویا کی ساری سکولنگ اور تعلیم لندن میں ہوئی کہ بڑا بھائی اور چچا چچی وہاں تھے۔کاروباری لوگ ہیں ۔ اس وقت ہیروں کے بڑے بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں۔دنیا میں نایاب اور قیمتی ہیروں کی سپلائی کے لیے یہ خاندان بڑی شہرت کا حامل ہے‘‘۔
اب پڑھنا پھر رُک گیا تھا۔ساتھ فٹ نوٹس بھی شروع ہوگئے تھے۔
’’دیکھو…