جونہی ذکیہ بیگم کی سانس کی ڈور ٹوٹی، ان کے آس پاس موجود سب افراد نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کو ایسا محسوس ہوتاتھا کہ جیسے گزشتہ دوڈھائی سال سے وہ سب ذکیہ بیگم کی جیتی جاگتی لاش کو اپنے کندھوں پراٹھائے پھر رہے تھے۔ آج اچانک یہ لاش سرک گئی تھی اوران کے کندھے اس بوجھ سے آزاد ہوگئے تھے۔ اس آزادی کا احساس ہوتے ہی انہوں نے گردنیں گھما کر ایک دوسرے کو کچھ اس انداز سے دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو یقین دلارہے ہوں کہ ذکیہ بیگم اب کبھی لوٹ کران کی دنیا میں واپس نہیں آئیںگی۔ پھر بڑی بہو نے اپنے میاں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کہا، کفن خریدنے جائو گے تو ساتھ ہی گلاب کے پھولوں کی ڈھیر ساری پتیاں ضرور لیتے آنا۔ امی کو گلاب کی خوشبو بہت پسند تھی‘‘۔
منجھلی رقت طاری کرتے ہوئے کہنے لگی۔
’’اجی سنیے! ذرا جا کر مدرسے سے کچھ بچوں کو لے آئیے۔یہاں بیٹھ کر وہ قرآن خوانی کرتے رہیں گے تاکہ امی کی روح کو سکون ملے‘‘۔
چھوٹی بہو نازیہ نے اپنے دوپٹے کو سرپر جماتے ہوئے اعلان کیا۔
’’میں نہلانے والی ماسی کو لینے جارہی ہوں۔ میت کو نہلانے کی ذمہ داری میری…
آج صبح اخبار پڑھتے ہوئے میری نظریں ایک تصویر پرجم کر رہ گئیں۔دو ماہرین آثارِ قدیمہ اپنے ہاتھوں میں کچھ ہڈیاں تھامے ہوئے تھے جنہیں وہ بڑے فخر سے دکھا رہے تھے ۔تصویرکے نیچے تفصیل دی گئی تھی کہ ان حضرات نے فلاں علاقے سے صدیوں پرانے ڈائینو سار کی ہڈیاں ڈھونڈ نکالی ہیں۔ میںنے دل ہی دل میںانہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’صاحبو ! اتنی بوسیدہ اور بے جان ہڈیاں تلاش کر کے بھلا آپ نے کیا کمال کیا ہے ۔ کبھی مجھ سے پوچھا ہوتا تومیں آپکو اپنی جیتی جاگتی ، زندہ، متحرک دریافت دکھاتی ۔ ایک ایسی ہستی جس کے رہن سہن اور جس کی سوچوں اور خیالات کا تعلق قدیم زمانے سے ہے۔ جن کو دیکھ کر ہمیشہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ وہ غالباًکوئی انسان نما خلائی مخلوق ہیں ۔ شاید کبھی کوئی خلائی طشتری راستہ بھول کر بھٹکتی ہوئی انسانی دنیا کی طرف آنکلی اور پھر نیچے اترتی اترتی زمین پر ٹک گئی ۔اس میں سے ایک مخلوق نکل کر ہماری دنیا میں آباد ہو گئی ۔ اسی مخلوق کا نام ہے ، میری نایاب و کمیاب باجی رافت۔‘‘
میں ساتویں جماعت کی طالبہ تھی، جب میرے والد کا تبادلہ لاہور ہو گیا اور ہم…
میرے چچا زاد بھائی کی شادی تھی جو میرا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا اور میرا بہترین دوست بھی تھا۔ میں نے شادی میں شرکت کرنے کے لیے دفتر سے چار دن کی چھٹی لے لی۔ سفر کی تیاری کرکے میں بس کے اڈے پر پہنچ گیا اور ٹکٹ لے کر انتظار گاہ میں آرام دہ صوفے پر بیٹھ گیا کہ بس کے روانہ ہونے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں بے حد خوش تھا کہ میرے کئی پرانے دوست مختلف شہروں سے اس شادی میں شرکت کرنے کے لیے آ رہے تھے۔
اس مشینی دور میں دوستوں کی یہ بیٹھک اک نعمت سے کم نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم سب مل کر اپنی شرارتوں اور نادانیوں کے قصے دہرائیں گے۔ گزرے دنوں کی خوشگوار یادوں کو یاد کریں گے۔ اپنی حماقتوں پر خود ہی قہقہے لگائیں گے۔ اپنے درمیان ہونے والے چھوٹے چھوٹے بے بنیاد جھگڑوں کو یاد کرکے لطف اندوز ہوں گے۔ آپس کی چھینا جھپٹی کے تصور کو تازہ کریں گے۔ بچپن کی رنگ برنگی اور معصوم خواہشوں کا تذکرہ کریں گے۔ بچپن کے سنہرے دنوں کی وہ انمول یادیں کہ جن کا خیال آتے ہی میری آنکھوں کے سامنے قوس قزح کے رنگ…