حمیرا بنت فرید

کھلونے ۔ حمیرا بنت فرید

ننھے منھے ہاتھوں نے مضبوطی سے اس کے دامن کو پکڑا ہوا تھا۔ صبا نے ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلا کرتے ہوئے انھیں چوما اور کھلونوں سے بھرا ایک شاپر اس کے حوالے کرتے ہوئے بڑی عجلت سے دروازہ بند کرتی ڈے کیئرسینٹر سے باہر نکل گئی۔ دو چار دن تو ہبہ کھلونوں سے بہل گئی لیکن اسے بھی اب اندازہ ہو گیا تھا کہ ماں اس کو یہ چیزیں دے کر شام تک کے لیے اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ صبا کے باہر نکلتے ہی وہ بے قابو ہو جاتی اور اس کی التجائی چیخیں جو وقت کے ساتھ ساتھ احتجاج میں تبدیل ہو چکی تھیں، دور تک اس کا پیچھا کرتیں۔ خواتین کارکنوں نے کچھ دن اس کے ناز اٹھائے لیکن پھر اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یوں ہبہ نے بھی سمجھوتہ کر لیا۔
صبابھی مجبورتھی۔وہ کوئی خوشی سے اپنی لخت جگرکوڈے کیئر کے حوالےکرکےنہیں جاتی تھی۔اس کاشوہرایک معمولی سی ملازمت کرتاتھا جس سےگزاراتوہورہاتھامگربڑھتی ہوئی مہنگائی نے انھیں مستقبل کے لیے بہت کچھ سوچنےپرمجبورکردیاتھا۔اپنی بیٹی کو ہرطرح کی آسائش اور خوشی دینااس کاخواب تھاسواس نےنوکری کرلی تھی۔میکےاورسسرال میں کوئی ایسا نہ تھا جس کےپاس وہ ہبہ کو چھوڑ سکتی ایسے میں ڈےکیئرہی اسے مناسب انتخاب لگا…

مزید پڑھیں

قدرت – حمیرا بنت فرید

نقاہت زدہ وجود میں تھوڑی سی حرارت وقوت محسوس ہونے پر اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’ممی ابھی لیٹی رہیں‘‘، لائبہ نے گرم سوپ کا آخری چمچہ ان کے منہ میں دیتے ہوئے کہا۔
’’الحمدللہ اب تو طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی ہے بیٹا‘‘، نازیہ نے کہا۔
’’اللّہ کا شکر احسان ہے۔ میرا خیال ہے آپ تھوڑی دیر سو جائیں، پھر عصر تک اٹھ جائیے گا‘‘،لائبہ ان کا کمبل درست کرتے ہوئے بولی’’میں بھی اتنی دیر اپنا اسائنمنٹ پورا کر لوں‘‘لائبہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو نازیہ نے مسکرا کر جیسے اسے اجازت دی۔
ایک ہفتے کی علالت کے بعد وہ رات کو ہی ہسپتال سے گھر آئی تھیں لیکن شدید کمزوری نے انہیں اٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور کیا ہؤا تھا۔ اس عرصے میں لائبہ نے جس جانفشانی سے دن رات ان کی خدمت کی تھی، وہ اس کی احسان مند تھیں۔ ان کے کھلانے ، پلانے، دوائی اور دوسری ضروریات کا لائبہ نے ہی خیال کیا تھا تب جا کے ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ آیا تھا۔
لیٹے لیٹے نازیہ کچھ اکتا سی گئی تھیں، انھوں نے اپنے کمزور و ناتواں جسم کو کھینچتے ہوئے بیٹھنے کی کوشش کی۔ دکھتی کمر کو بستر کا سہارا دیتے ہوئے انہوں نے اپنا…

مزید پڑھیں