ڈاکٹر ممتاز عمر

آہ سید مختار الحسن گوہر – بتول فروری ۲۰۲۱

پروفیسر سید مختار الحسن گوہر بھی ہمیں چھوڑ کر ابدی نیند جا سوئے۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے صاحب فراش تھے ۔ قوت گویائی سلب ہوچکی تھی۔ ممکن ہے قوت سماعت باقی ہو کیونکہ آواز دینے پر آنکھیں کھولتے اور محض پتلیاں گھما کر ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتے اور پھر محو خواب ہو جاتے۔ 29نومبر کی دوپہر سانسوں کا یہ بندھن ٹوٹا اور قلب کی حرکت بھی خاموش ہوتی چلی گئی۔ ان سے تعلق چار عشروں سے زائد عرصے پر محیط رہا ۔گوہر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ معاشی تنگدستی میں گزارا ۔ کرائے کے مکان میں جو جامع مسجد ربانی کورنگی سے ملحق تھا مقیم رہے یہ وہ دور تھا جب نان شبینہ کے حصول میںاکثر انہیں ناکامی کا سامنا رہا مگر اپنی غربت اور نا آسودگی کا اظہار کبھی ان کے لبوں پر نہ آیا ۔ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول نومبر ۲۰۲۱

آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان (ڈاکٹر ممتاز عمر ، کراچی) وائے قسمت دید کو ترسیں گی آنکھیں عمر بھر بن کے ابرِ خوں فشاں برسیں گی آنکھ عمر بھر آپ کے طوفانِ غم میں ہر سفینہ بہہ گیا اب میری تقدیر میں رونا ہی رونا رہ گیا ڈاکٹر عبد القدیر خان اس عظیم ہستی کا نام ہے جسے محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ۔ ایسے بلند پایہ لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ انتہائی خوش مزاج ، ملنسار اور بے لوث انسا ن تھے ۔ میں چونکہ پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہوںاس لیے درس و تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ خدمت کے کاموں میں بھی مصروف رہا کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا علم تھا اس لیے گزشتہ رمضان المبارک کے دوران انہوں نے مجھے فون پر مشورہ دیا تھا کہ میں ایک این جی او قائم کر کے رجسٹر

مزید پڑھیں

مدینہ کا تاریخی پس منظر – بتول نومبر ۲۰۲۱

یہ شہر جو آج مدینۃ النبیؐ، طیبہ، مدینہ منورہ، مدینہ طیبہ اور تقریبا ً دیگر سو ناموں سے موسوم ہے کہا جاتا ہے کہ پہلے یثرب کہلاتا تھا کیوں کہ یہ ’’ حضرت نوحؑ کی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروں میںآباد ہوئی تو یثرب نے اس سر زمین میں قیام کیا ‘‘ ؎۱ ویسے اس روایت کو تقویت عمالقہ کے یہاں مقیم ہونے سے بھی ملتی ہے ۔ حضرت نوح ؑ کی کشتی پر سوار وہ لوگ تھے جو کفر و شرک اختیار کرنے کے بعد بابل سے مدینہ کی طرف آ بسے تھے اور انہوں نے زراعت کے پیشے کو اپناتے ہوئے بکثرت کھجوروں کے درخت لگائے یہ مسام بن نوح کی اولاد میں سے تھے ۔ ان کا اقتدار حجاز کے کافی بڑے علاقے پر قائم تھا وہ تکبر میں مبتلا ہوگئے ۔ اس وقت ان کا بادشاہ ارقم

مزید پڑھیں

خطبہ حجۃ الوداع – بتول جون ۲۰۲۲

اور پھر وہ وقت آیا کہ ملک میں امن و امان تھا ۔ لوگ جو ق در جوق اسلام قبول کر رہے تھے ۔ ارشاد ربانی ہؤا ’’ جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور نبیﷺ تم دیکھ لو کہ فوجدر فوج لوگ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرواور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘۔ حضور اکرم ؐ کے حصے کا کام تکمیل کو پہنچ رہا تھا ۔ زکوٰۃ ، جزیہ سود کی حرمت کے احکامات ناخوذ ہو چکے تھے 10ھ ذیقعد کے آخری ہفتے میں آپ ؐ مدینہ سے روانہ ہوئے م۔ مکہ پہنچ کر مناسک حج کی ادائیگی کے لیے عرفات کی طرف روانہ ہوئے یہ 9ذالحج کا دن تھا ایک اذان دو تکبیروں کے ساتھ نماز ظہر و عصر

مزید پڑھیں

مدینے کا تاریخی پس منظر – بتول جنوری ۲۰۲۲

یہ شہر جو آج مدینۃ النبیؐ،طیبہ، مدینہ منورہ، مدینہ طیبہ اور تقریباً دیگر سو ناموں سے موسوم ہے کہا جاتا ہے کہ پہلے یثرب کہلاتا تھا کیوںکہ یہ حضرت نوح ؑکی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروںمیںآباد ہوئی تو یثرب نے اس سر زمین میں قیام کیا ۔ ویسے اس روایت کو تقویت عمالقہ کے یہاںمقیم ہونے سے بھی ملتی ہے ۔ یہ حضرت نوحؑکی کشتی پر سوار وہ لوگ تھے جوکفر وشرک اختیار کرنے کے بعد بابل سے مدینہ کی طرف آ بسے تھے اور انہوں نے زراعت کے پیشے کو اپناتے ہوئے یہاںبکثرت کھجوروں کے درخت لگائے یہ مسام بن نوح کی اولاد میں ہو گئے ۔ اس وقت ان کا بادشاہ ارقم تھا جب حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر و شام کو فتح کیا اور دیگر علاقوں کی تسخیر کے لیے بنی اسرائیل کو

مزید پڑھیں

اہلِ مغرب کی اچھائیوں پر بھی توجہ کیجیے! -بتول اپریل ۲۰۲۳

ہم اکثر مغرب سے شاکی رہتے ہیں ان کی تہذیب کو فرسودہ ، فخش سمجھتے ہوئے معاشرتی اقدار کو تباہی کے دوراہے پہ گامزن خیال کرتے ہیں حالانکہ اگر نیک نیتی کے ساتھ مغرب کا جائزہ لیں تو اخلاقی بے راہ روی ان کے ہاں سرائیت کر چکی ہے مگر معاشرتی اعتبار سے انہوں نے خاصی ترقی کی ہے ۔ انسانی حقوق اور قانون کی پابندی ان کے یہاں بلند مقام پر ہیں ۔ سائنسی ترقی کا تو کہنا ہی کیا ! وہ جو کبھی اقبال کا تصور تھا کہ ’’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘۔ اس کی حقیقی تصویر کی دیگر ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈالنے کی خبریں آتی ہیں ۔ وہ جو کبھی کہا جاتا تھا کہ آسمان پر تھگلی لگائے گا اس کا حقیقی روپ آج کی سائنسی ترقی میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہی نہیں بیماریوں کے حوالے سے پنسلین کی

مزید پڑھیں