عرف اور دین – ڈاکٹر محمدغیاث
اپنی علاقائی اقدار و روایات کو دین قرار دینا درحقیقت افراط اور تفریط کا مظہر ہے ،معاصر تصور پردہ اور لڑکیوں کی تعلیم پر دینی تعلیمات کی روشنی میں ایک تجزیہ
میرا خیال ہے کہ ہم پاکستانی اور بالخصوص پشتون علماجب بھی سماجی مسائل پر غور کرتے ہیں تو ہم ان مسائل کو اپنے مخصوص علاقائی نفسیات،تہذیب ، ثقافت اور تمدن کو مد نظر رکھ کر ان کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے ہماری علمی آراپر شرعی رنگ کے بجائے علاقائی رنگ زیادہ غالب ہوتا ہے اور بعض اوقات تو اس کی روح شریعت اسلامی کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتی۔جس کی وجہ سے ہم مقامی مسلمان نما لوگوں کے مسائل تو عرف کو سامنے رکھتے ہوئے حل کر سکتے ہیں لیکن ان مسائل کی حقیقت اور نوعیت کے اعتبار سے دینی تعلیمات سے مزین کوئی مطلوب حل پیش نہیں کر پاتے۔
بہر کیف ایک تو ہمارا معاشرتی مزاج اس طرح بن چکا ہے کہ ہم عرف کو دین پر ترجیح دیتے ہیں اور یہ مزاج درحقیقت اہلِ کتاب کا تھا جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔
ترجمہ: پھر یہ تم ہی ہو جو اپنے لوگوں کو قتل (بھی) کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو…