بھئی واہ کیا ووفلز ہیں، مدینہ کی آئسکریم کی یاد دلادی، ہمارے ہوٹل کی آئس کریم کے ساتھ ووفلز بھی ملتے تھے‘‘۔’’
کٹی پارٹی میں شریک ایک مہمان نے ووفلز کو اسٹرا بیری سیرپ میں ڈبوتے مدینہ کا نام لیتے بڑی عقیدت کے ساتھ ذائقہ کا ذکر کیا تو سب کے لیے گفتگو مقدس روپ دھار گئی۔
محفل میں شریک دس کی دس میں دین دار، دنیا دار تعلیم یافتہ اور سلجھی مانے جانے والی مختلف عمر اور شعبہ زندگی کی خواتین تھیں جنہوں نے ووفلز اور حرم کے ذکر پر دنیا، وبا اور نتیجتاً برپا صورتحال پر گفتگو شروع کردی۔ مکہ مدینہ کی غیر حاضری سب ہی کو آزردہ کیے دے رہی تھی،رب کعبہ اور نبی مدینہ کے روضہ مبارک پر عائد پاپندیوں پر غم ان کی آوازوں کے اتار چڑھاؤ پر طاری ہوتا لگنے لگا۔ فرشتے خدا کے ذکر کی اس محفل کو سکینت سے ڈھانپنے اتر آئے۔
یکایک بیگم ریشماں کرم الٰہی کا موبائل بج اٹھا۔قدیم جدید کا ملاپ اپنے آپ کو کہتیں نک سک سے تیار ریشماں ہوم شیف تھیں، ان کی انیس سو پینسٹھ کےمشہور فلمی نغمہ کی کال ٹیون ابھری تو یہ مداخلت فرشتوں اور انسانوں دونوں کو پسند نہ آئی۔ فضا سے تقدس ٹوٹااور ریشماں نےدھیمی…
حسیب کمال میرے ساتھ فٹ بال کلب میں تھا۔وہ بہت اچھا کھیلتا، کوچ اکثر اس کے کھیل کی تعریف کرتے تھے لیکن کسی دوسرے وقت وہ اس کے معمولی بیک گراونڈ سے ہونے کے باعث اس کا خوب مذاق بھی اڑاتے جس سے ساتھی کھلاڑیوں کو بھی شہ ملتی کہ وہ حسیب پر طنز کریں، اس کے لیے دبا دبا حسد اس انداز میں نکالیں۔ کوچ اور ساتھیوں کے رویہ کو وہ خاموشی سے برداشت کرتا لیکن اس کی آنکھوں میں مجھے غصہ نظر آتا ۔ اس کے ہاتھ اور چہرے پر کبھی کھرونچ کے نشانات ہوتے جیسے کسی کے ساتھ اس کی لڑائی ہوئی ہو۔ ہماری ٹیم انڈر ففٹین تھی، اس کلب میں شہر کے کھاتے پیتے گھر کے بچے فٹ بال کھیل سیکھنے آتے تھے، فیس ان گھرانوں کے لیے کچھ زیادہ نہ تھی لیکن حسیب کمال کیسے یہ فیس ادا کرتا تھا، یہ حیرت تھی…..ہم جانتے تھے کہ حسیب کے والد قریب کے علاقے میں فرنچ فرائز کا اسٹال لگاتے ہیں اور ان کے حسیب کے علاوہ چار اور بچے ہیں، وہ سب اسکول پڑھتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات سمجھ نہ آتی تھی کہ حسیب کی یہ فیس کیسے ادا ہوتی ہے۔ کئی بار میں نےکلب…
نہ جانے کس مخصوص غذائی جز کی کمی تھی کہ ’ روشنی‘ نام ہونے کےباوجود بھی وہ سیاہ رنگت کی تھی۔ بنگلہ نمبر بی تینتیس میں روشنی کی ماں جب اپنی گیارہ برس کی بچی کو کام کے لیے چھوڑ کر گئی تو چھ ماہ کے پیشگی معاوضہ کے طور پر اس کی پوٹلی میں ستر ہزار سکہ رائج الوقت بھی بندھا تھا ، اس ستر سے اس کے کنبے کی سات ضروریات کچھ عرصہ ہی پوری ہوتیں، جس میں غذا کی فراہمی سے لے کر موبائل کارڈ کی خریداری بھی تھی۔ اب بھی دس ہزار کم ملے تھے۔ پچھلی گلی کے سفید بنگلہ والی اماں جی نے سال بھر کا ایڈوانس اور پیسے بھی بہو کی ناپسندیدگی کے باوجود زیادہ دیے لیکن روشنی دو ماہ میں ہی بھاگ گئی ، وہ تو شکر ہے بھاگ کر کالونی باغ ہی گئی جہاں اس کا ماموں مالی تھا۔
ماموں گیٹ کے ساتھ لگی باڑھ کی کاٹ چھانٹ میں مصروف تھا جب روشنی کی منمناتی آواز اس کے کانوں میں آئی تو وہ اسے دیکھ کر پہلے حیرت اور پھر طیش میں آگیا اور اسے گھسیٹتا وہیں پہنچا جہاں سے وہ آئی تھی لیکن انہوں نے کسی بڑی آفت میں گھرنے سے پہلے…