ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟ – بتول جنوری ۲۰۲۲
روزمرہ کاموں میں دل نہ لگنا، اداسی، مایوسی، بیزاری، گھبراہٹ، بے چینی یا بے بسی ڈپریشن کی علامات ہو سکتی ہیں۔
’’یہ سب تمہارا وہم ہے‘‘۔
’ ’پریشانی کی کوئی بات نہیں‘‘ یا
’’خوش رہا کرو، تم بہتر محسوس کرو گے‘‘۔
یہ باتیں یقیناً کسی ذیابیطس کے مریض کو نہیں سننی پڑیں گی۔ لیکن جب ذہنی امراض کی بات ہوتی ہے تو ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ایسے ہی عجیب و غریب مشورے دیتے ہیں۔عام لوگ تو دور کی بات، اکثر اوقات تو معالج بھی ایسی ایسی باتیں کر دیتے ہیں کہ مریض کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ ہنسے یا روئے۔کئی مرتبہ تو ڈاکٹر صاحب خود ہی عقیدہ ٹھیک کرنے اور نماز باقاعدگی سے پڑھنے کا نسخہ دے کر جان چھڑوا لیتے ہیں۔
سماجی کارکن اور ذہنی امرض کے لیے رہنمائی فراہم کرنی والے فلاحی ادارے ’’دی کلر بلیو‘ ‘کی سربراہ دانیکا کمال کہتی ہیں کہ ’’میں تین چار برس قبل خود ڈپریشن کا شکار ہوئی تو مجھے احساس ہؤا کہ میرے ارد گرد کے افراد یہاں تک کہ ڈاکٹروں کو بھی اس مرض کی سمجھ نہیں تھی‘‘۔
’’میرا اپنا خاندان بہت مدد گار تھا لیکن دوسرے لوگ کہتے تھے کہ تمھیں کیسے ڈپریشن ہو سکتا ہے،یہ عارضی ہے تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔ ہمارے…