مدیحہ نورانی

رم جھم لاج – نور نومبر ۲۰۲۰

آیا اماں کے رم جھم لاج سے جانے کے بعد اگلی صبح دادی جان اور آسیہ بیگم نے ناشتہ بنایا۔ جویریہ اور جنید نے میز پر برتن لگائے[ مومو نے آیا اماں کے باقی کام سنبھالے ۔ آمنہ اور ابراہیم دونوںناشتہ میز پر لگ جانے کے بعد آئے ؎دادی جان کی تیز نگاہوں سے ابراہیم کی پریشانی چھپی نہ رہ سکی ۔
’’ اسکول سے واپسی پر ہم اکیلے میں اس سے پوچھیں گے کہ آخر دو تین دن سے یہ اتنا خاموش کیوںہے ۔ کوئی بات تو ضرور ہے ۔‘‘ انہوں نے سوچا۔
’’ ابراہیم اور جنید ! تم لوگوں کے اسکول کی چھٹی دیر سے ہوتی ہے اس لیے تم تو آمنہ کا ڈرامہ دیکھنے نہیں جا سکتے مگر باقی ہم سب دوپہر کے کھانے کے بعد ڈرامہ دیکھنے جائیں گے۔ ٹھیک ہے نا ہارون؟‘‘ آسیہ بیگم نے اپنے شوہر سے دریافت کیا۔
’’ نہیں ، میںنہیں جائوں گا ۔ باقی لوگ چلے جائیں۔‘‘ ڈاکٹر ہارون نے اخبار کے پیچھے سے جواب دیا۔
مومو نے آمنہ کو کہنی ماری اور سر گوشی میں کہا:
’’ آمنہ باجی! ابا کو ڈرامے پر آنے کے لیے کہو۔‘‘
مگر آمنہ نے اس کی بات سنی ان سنی کردی۔ وہ دوسروں کو معاف کرنا نہیں جانتی تھی، خواہ…

مزید پڑھیں

رم جھم لاج – نوردسمبر ۲۰۲۰

شام کی چائے تک بیگم خدیجہ واپس آچکی تھیں جب کہ آسیہ بیگم اپنے شوہر کی تیمار داری کے لیے ہسپتال میں ہی رُک گئی تھیں ۔پانچوں بچے دادی جان کے ارد گرد جمع ہو گئے۔
’’خدا کا شکر ہے کہ ہارون کو ہوش آگیا ہے اور آپریشن بھی کامیاب ہوا ہے۔ دایاں بازو ٹوٹا ہے ۔ خدا کرے گا جلد صحیح ہو جائے گا ۔ بس پھر …‘‘ دادی جان نے بات نا مکمل چھوڑ دی ۔
’’ پھر کیا دادی جان ؟‘‘
’’ کیا بات ہے دادی جان ! سچ سچ بتائیں ۔ آپ ضرور کچھ چھپا رہی ہیں ۔‘‘
’’ کہاں کہاں چوٹ لگی ہے ہمارے ابا کو ؟‘‘۔
بچے سوال پر سوال کرنے لگے۔
’’ بچو! سچ یہ ہے کہ ہارون کا دایاں ہاتھ بری طرح زخمی ہوا ہے ۔‘‘ دادی جان نے گہری سانس لی۔
بچوں کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے شروع ہو گئے ۔ دائیاں ہاتھ!اس سے ابا سرجری کرتے ہیں ۔ اگر ابا سرجری نہ کریں گے تو پھر کیا کریں گے ؟ ان کو تو سرجری کر کے لوگوں کے کام آنا بہت پسند ہے اور اگر سرجری نہیں کریں گے تو کمائیں گے کیسے ؟
’’ آمنہ بیٹی، ہم بہت تھک گئے ہیں ! ذرا ہمیں…

مزید پڑھیں

رم جھم لاج (ناول) – نور مارچ ۲۰۲۱

جویریہ اور جنید کا ہفتہ اور اتوار کا دن باغ میں گزرتا تھا ۔ آج بھی وہ صبح سے مالی بابا کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔ کبھی کیاریاں صاف کرتے تھے۔ کبھی پودوں پر دوائی چھڑکتے، کبھی پکے ہوئے پھل اتارتے اور کبھی نئے پودے لگانے میںمالی بابا کا ہاتھ بٹاتے ۔ ساتھ ہی ساتھ تینوں باتیں بھی کر رہے تھے ۔ مالی بابا کہہ رہے تھے ۔
’’ ڈاکٹر صاحب کے حادثے کا سن کر بہت افسوس ہوا جنید بابو خدا ان کو شفا دے ۔بڑے نیک آدمی ہیں۔‘‘
’’ جی مالی بابا ۔ آپ کو پتا ہے نا کہ ان کا سیدھا ہاتھ بہت زخمی ہوا ہے ۔‘‘جنید نے پوچھا۔
’’ جی ، مجھے پتا چلا ہے یہ بہت برا ہوا ہے ۔ اب وہ کیسے ہسپتال میں کام کریں گے ؟ ان کی نوکری چلے جائے گی پھر جب آدمی کا م نہ کر پائے تو بہت مایوس ہو جاتا ہے ۔‘‘
’’ بس مالی بابا ! ان کے لیے دعا کریں ۔‘‘جویریہ بولی۔
’’ بیٹی ، میں ہر نماز میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں ۔ خدا ان کو جلد صحت یاب کرے۔ آپ ان سے ملنے جائیں تو میرا سلام اور دعا ضرورد یجیے گا ۔ اچھا اب…

مزید پڑھیں

رم جھم لاج – نور جنوری ۲۰۲۱

ٹھیک اڑھائی بجے ابراہیم ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں داخل ہوا ۔ اندر ہیڈ ماسٹر کے ساتھ سر قاضی، سرمرتضیٰ اور عثمان کے والد بیٹھے تھے ۔ عثمان کے والد لمبے ، چوڑے ،رعب دار شخص تھے جو اپنے غصے کی وجہ سے مشہور تھے ۔ ان کو دیکھ کرابراہیم کے پائوں تلے زمین نکل گئی ۔ اس نے خودکو سنبھالتے ہوئے کہا :
’’السلام علیکم ہیڈ ماسٹر صاحب ۔ آپ نے مجھے بلایا؟‘‘
’’ جی ہاں ! اور آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ کیوں! میں آپ سے ایک ہی دفعہ پوچھوں گا اور مجھے صرف سچ سننا ہے ۔ ابراہیم ہارون ! کیا آپ نے وہ بوتل کھڑکی سے پھینکی تھی جو عثمان کے سر پر گری ؟‘‘ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
’’ ج…ج…جی سر ! لیکن سر مجھے ہر گز علم نہ تھا کہ وہاں سے اس وقت کوئی گزر رہا ہوگا۔ سچ سر ‘‘ ابراہیم کے لبوں سے کپکپاتے ہوئے نکلا۔
’’آپ کو بوتل پھینکتے ہوئے ذرا خیال نہ آیا کہ آپ کتنی غیر ذمے دارانہ اور خطر ناک حرکت کررہے ہیں ؟ ‘‘ انہوں نے غصہ سے کہا ۔
’’ نہیں سر ! آئی ایم ویری سوری سر ! مجھے نہیں پتا…

مزید پڑھیں

رم جھم لاج – نور اپریل ۲۰۲۱

مومو نے امی اور دادی جان کو آمنہ کے اسکالر شپ کے امتحان میں پاس نہ ہونے کی خبر دی تو امی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
’’ آمنہ اسکالر شپ حاصل نہیں کر سکی؟ مگر کیسے ؟ آمنہ تو ہمیشہ ہی اول آتی رہی ہے ۔‘‘ ان کا صدمے سے برا حال تھا۔
دادی جان البتہ بالکل حیران نہ ہوئیں ’’ ہمیں اسی بات کا ڈر تھا ۔‘‘ مگر پھپھو جان ۔ اب آمنہ کیا کرے گی ؟ ہم یونیورسٹی کی فیس کیسے ادا کریں گے ؟ یا خدا! ہماری پریشانیاں کب ختم ہو ں گی ؟‘‘آسیہ بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
’’ جو بھی ہو آسیہ ، آمنہ کو اپنے آپ کو خاندان کا حصہ بنانا چاہیے اور گھر کی ذمہ داریوںمیں شریک ہونا چاہیے ۔ رات کو عشاء کے بعد سب بچوں کو اکٹھا کرو تاکہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے ۔‘‘
’’ جی پھپھو جان ، جویریہ اور جنید کو سُلا کر ہم سب بیٹھ جائیں گے ‘‘ انھوں نے سر ہلایا۔
’’ نہیں آسیہ ، جویریہ اور جنید کا بھی اس میٹنگ میں ہونا ضروری ہے ۔وہ کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں ، سمجھدار ہیں ۔ ہارون ایک دو سال تک سرجری…

مزید پڑھیں