علامتی افسانہ – آخری چراغ – عبد الرحمان
گئے وقت کے کسی لمحے میں فلک سے دو قطرے زمین پر برسے اور صدیوں سے سوئے ہوئے براعظم جاگ اٹھے۔ مگر یہ دونوں قطرے مختلف سمت میں ایک دوسرے سے کئی میلوں دور گرے۔ اور ایک دوسرے کو پانے کی کھوج میں نکل پڑے۔ یعنی وجود کی زندگی ایک تلاش ہے۔ مزار کی سیڑھیوں سے اتر کر کچھ فاصلے پر نظر آنے والی ساحلی پٹی کی طرف جاتے ہوئے میرا ذہن کا ئنات کے اسرار ورموز جاننے کی سوچوں میں مگن تھا۔ رات گہری ہو رہی تھی۔ ساحل پر سیر کو آئے لوگ گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ سمندر سے لہروں کا شور بدستور اٹھ رہا تھا۔ دن بھر کی دھوپ سہنے اور تھکاوٹ کے باوجو دافق پر چمکتے ہوئے چاند نے ان کا سکوت چھین لیا تھا۔ بھنور سے لے کر ساحل اور دوبارہساحل سے لے کر گرداب تک ان لہروں کا سفر بھی کسی کی تلاش میں ہی ہوتا ہوگا۔
’’تلاش کا سفر بہت لمبا اور کٹھن ہے مگر پھر بھی یہ طے ہو ہی جاتا ہے۔ مگر کیسے؟ وہ کونسی چیز ہے جو انسان کو راستے کے پتھروں سے ٹکرا کر گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے؟ کچھ تو ہے ‘‘۔ ساحل کنارے چلتے ہوئے…