عائشہ ناصر

تاریک – بتول جنوری ۲۰۲۲

سورج کی کرنیں لہلہاتی فصلوں کو روشن کر رہی تھیں ۔ آسمان پر ٹکڑیوں کی صورت تیرتے بادلوں کا عکس دریا کے شفاف اوررواں پانی میں نمایاںتھا۔ دریا کے کنارے آباد اس گائوں میںصبح کی رونقیںعروج پر تھیں۔ کاندھوں پر بستے ڈالے نیلی وردی پہنے معصوم صورت بچے اسکولوںکی جانب رواںدواںتھے ۔ کسان کھیتوں میں کام کرتے نظر آرہے تھے ۔کہیں کہیںرنگین آنچل سےسروں کو ڈھانپے عورتیں بھی کھیتوں میں کام کر رہی تھیں۔
امینہ اپنی دو چھوٹی بہنوںکے ساتھ فصلوں میںکام کر رہی تھیں۔باپ کے انتقال کے بعد ان کے گھر میں کل پانچ لوگ ہی بچے تھے ۔اس کی بیمار ماں ،دوبہنیںاوردو سالہ بھائی ۔ معاش کی ذمہ داری اب اس کے نازک کاندھوں پر آ پڑی تھی۔ وہ اپنی بہنوں کے ساتھ فصلوں میں کام کر کے روز ی روٹی پانی کا بدو بست کرتی ۔ حیران کن طور پرآج مطلع صاف تھا ۔ بنگال کے برساتی موسم میںمطلع کا صاف ہونا ایک حیران کن امر تھا ۔ امینہ کی چھوٹی بہنیں فصلوںمیں کام کرنے کے ساتھ اٹھکیلیاں بھی کررہی تھیں ۔ معاشی تنگدستی اورمصائب نے ان سے لڑکپن کی شوخیاں نہیںچھینی تھیں ۔ امینہ البتہ وقت سے پہلے ہی سمجھدار ہوگئی تھی۔ فصلوں کوگوڈی کرتے ہوئے پتہ…

مزید پڑھیں

سیاہی – بتول دسمبر۲۰۲۲

رات کی کالی چادر تن چکی تھی ۔ خاموشی کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے ۔ جھینگروں کی آوازیں رات کی خاموشی میں عجب شور پیدا کرتیں ۔ اس نے کھڑکی کی طرف نظر ڈال کر باریک جالیوں سے جھانکتے گہری سیاہ رات کو دیکھا پھر بیڈ کے سرہانے سے سر ٹکا کر بیٹھ گئی۔’’ رات کی سیاہی تو مٹ جائے گی لیکن آخر میرے نصیب کی سیاہی کب ختم ہو گی ‘‘۔ اس نے گہری آہ بھرتے ہوئے سوچا۔سامنے سپید ٹیوب لائٹ کی روشنی میں آئینہ میں اس کا سراپا ابھر رہا تھا ۔ گہری سانولی سیاہی مائل رنگت، مناسب نقوش، آسمانی جوڑے سے جھانکتے ہاتھ اور پیر جو چہرے سے بھی زیادہ کمہلائے ہوئے تھے ۔ اس کی سفید چمکتی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے ۔ وہ اپنے والدین کی دوسری بیٹی تھی ، نہ ان چاہی ، نہ من چاہی ۔ اس کی ماں کو تو خبر ہی نہ ہوئی جانے کب پھول سی سرخ و سفید حمنہ کو پالتے پالتے کالی کلوٹی آمنہ ان کی گود میں آگئی۔ فرخندہ بیگ نے نہ صبر کیا نہ شکر ،بس دل پر جبر کر کے ایک فرض کی مانند اس کو پالنے لگیں ۔ اسکول کالج کا…

مزید پڑھیں

عدّت – بتول مئی ۲۰۲۳

بریانی کی دیگ کھلی اور مہک کچن سے ہوتی ہوئی صحن تک پہنچی جہاں قرینہ سے بچھی دریوں پرعورتیں بیٹھی چنے پڑھ رہی تھیں ۔ دیگ کھلنے کی آواز پر جلدی جلدی چنے سمٹنے شروع ہوگئے ۔ نائلہ اور یمنیٰ نے کھانے کادسترخوان سجا دیا ۔سفید دوپٹہ سنبھالتی عورتیں دسترخوان کے گرد بیٹھ گئیں۔تھوڑی ہی دیر میں درودشریف اور فاتحہ کی آوازوں کی جگہ چمچوں ، پلیٹوں کی کھنکھناہٹ اور عورتوںکی باتیں کرنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔
یہ شاہد صاحب کا گھر تھاجہاں وہ اپنی بیگم ساجدہ خاتون اور دو بیٹیوں نائلہ اوریمنیٰ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ وہ پچھلے کئی برس سے فالج جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے ۔ شہر کے معروف بازار میں ان کی کپڑوں کی دکان تھی جہاں وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کام کرتے تھے لیکن فالج کی وجہ سے وہ کاروبار پر جانا بھی چھوڑ چکے تھے ۔ یوں سارے کاروباری معاملات ان کے بیمار ہوتے ہی بھائیوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ۔ سارا منافع اپنے پاس رکھ کربھائی ان کو قلیل سا ماہانہ خرچ دے دیتے جو ان کے علاج معالجہ میں ہی لگ جاتا ۔یوں گھر کی گاڑی کھینچنے کے لیے نائلہ اوریمنیٰ نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا…

مزید پڑھیں

انکاری – عائشہ ناصر

سلاخوں کے پارسے اٹھتی سوندھی سوندھی گیلی مٹی کی مہک نے اسے ماضی میں گم کردیا ۔ اس کاکچی مٹی سے تعمیرکردہ ایک کمرے اورصحن پرمشتمل مکان بھی بارش کی بوندیں پڑتے ہی یوںہی مہک اٹھا تھا۔ اس کچے پکے مکان میں وہ کنچے کھیلتا ہؤا بڑا ہؤا، اورجانے کب رنگ برنگے کنچے کھیلتے ہوئے اس کی ماں انیلہ اسے سرکاری اسکول میں داخل کرا آئی ۔ اس کی عمر غالباً سات سے اٹھ برس تھی جب اس نے پہلی بارکاغذ قلم کوچھوا۔آہستہ آہستہ اسے اسکول کاماحول بھانے لگا۔ اساتذہ کے نرم گرم رویہ کا بھی وہ دھیرے دھیرے عادی ہوگیا ۔ اب وہ کاغذ قلم کے ساتھ بستہ میں کنچہ بھی بھر کرلاتا ۔ کھانے کے وقفہ میں رنگےبرنگے کنچے بستہ سےنکلتے اورکھیل کا میدان گویا کنچوں سے رنگین ہوجاتا ۔
یہ موسم گرما کا وسط تھا ۔مون سون شروع ہوچکا تھا۔بارش کی رم جھم اس کے کچے گھر کو مہکا جاتی ۔لیکن ایک دن مینہہ اس زور سے برسا کہ اس کا کچا پکا مکان ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو گیا ۔لوگوں نے اسے ، اس کی ماں اورچھوٹی بہن کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا ۔ کچھ دن زیرعلاج رہنے کے بعد جب وہ واپس…

مزید پڑھیں