اپنے کمرے میں آ کر میں نے وقت دیکھا ۔پاکستان میں اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہوں گے ،ماما جاگی ہوئی ہوں گی میرے فون کے انتظار میں۔۔۔ ایک ٹھنڈی سانس بے اختیار میرے منہ سے نکلی، موڈ کو خوشگوار کیا ،سارے دن کی بے کلی اور کوفت کو ایک طرف رکھ کر میں نے کال ملائی ۔
وہ انتظار ہی میں تھیں ۔سلام دعا کے بعد جو پہلی خبر انہوں نےمجھے سنائی وہ حمزہ کی تھی۔ اس کا بھی باہر جانے کا ہو گیا ہے، اماں نے سادے سے انداز میں اپنی طرف سے خوشی کی خبرمجھے سنائی ۔ میری کافی عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی ۔جب میں کال کرتا تھا وہ عموماً گھر پر نہیں ہوتا تھا۔ من موجی لڑکا تھا پڑھائی میں اچھا تھا اور اب ڈاکٹر بن چکا تھا، ہاؤس جاب مکمل ہونے والی تھی اس لیے گھر والوں کی طرف سے اس کی روٹین کے حوالے سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
میں نے ان کے حسب توقع خوشی کے چند جملے بولے اور فون بند کردیا۔
یہ کال مجھے آج سے چار سال پیچھے لے گئی۔ ایک انجنئیرنگ یونیورسٹی سے اچھے نمبروں سے گریجویٹ ہونے کے بعد میرے بھی یہی خیالات تھے…