شازیہ بانو

خالو جی – شازیہ بانو

شاید میں چار سال کی تھی جب میری امی نے ادھر ادھر سے معلومات لے کر میری تعلیم کے آغاز کے لیے میری انگلی پکڑی اور خالو جی کے گھر کی طرف چل پڑیں۔
ان کا گھر کوئی 15 منٹ کی پیدل مسافت پر ہو گا۔ گلیوں میں سے چلتے ہوئے ان کے گھر پہنچے جس کے باہر پیلے اور سفید رنگ کی سفیدی ہوئی تھی۔ دروازے کے پاس شہتوت کا درخت لگا تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوئے تو کم چوڑائی والا مگر دو گلیوں کے آر پار لمبا گھر تھا۔ شروع میں صحن تھا جس میں ایک طرف انار کا درخت اور دیوار کے ساتھ ساتھ سبزیاں اگائی ہوئی تھیں۔ دونوں آمنے سامنے کی دیواروں کے ساتھ دو رویہ ٹاٹ بچھے تھے جس پر بچے مناسب فاصلے پر قطار میں بیٹھے سبق یاد کرنے یا تختی لکھنے میں مصروف تھے۔ صحن سے گزر کر بر آمدہ تھا، بر آمدے سے متصل تین کمرے مسلسل آگے پیچھے تھے۔ برآمدے میں بائیں طرف بڑے سائز کی موٹے پایوں والی باریک بان کی چارپائی بچھی تھی جس پر ایک صاحب تشریف فرما تھے جنہیں سب خالو جی کہہ رہے تھے۔
خالو جی جن کا نام( بہت بعد میں مجھے پتہ چلا) شیخ عبد…

مزید پڑھیں