سارہ عادل

اے کاش میں ….. ہوتی! – بتول دسمبر ۲۰۲۰

حریم ادب جدہ کی جانب سے جب سے طبع آزمائی کے لیے مختلف موضوعات ملے تھے مستقل ہی ذہن سوچ بچار میں مصروف تھا کہ بھلا کس موضوع پہ ہاتھ صاف کیا جائے۔ چونکہ لکھاری نہیں لہٰذا باقاعدہ کسی موضوع پہ لکھنے کے لیے ذہن کو تھکانا اور سوچ کے گھوڑوں کو دوڑانا پڑتا ہے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ہاتھ مختلف کاموں میں مصروف اور دل و دماغ مسلسل اس سوچ میں کہ ’’اے کاش میں……ہوتی‘‘۔خاتونِ خانہ کا زیادہ تر وقت تو چونکہ باورچی خانے میں ہی گزرتا ہے(اس کی وجہ شاید دونوں میں ’’خانہ‘‘ کا مشترک ہونا ہے) تو برتن دھوتے دھوتے ذہنی رَو انواع و اقسام کے برتنوں کے گردا گرد گھومتی رہی کہ ’’اے کاش میں چمچہ ہوتی‘‘(برتنوں والا چمچہ آپ کہیں دوسرا ’’چمچہ‘‘ نہ سمجھ بیٹھیں)۔ اے کاش میں پلیٹ ہوتی! اے کاش میں بڑا والا دیگچہ ہوتی۔کیونکہ اب کی ہاتھ دیگچہ رگڑنے میں مصروف

مزید پڑھیں