براہ کرم اس مواد کو دیکھنے کے لئے لاگ ان کریں۔
یادیں کیا ہوتی ہیں ؟کوئی ایسی بات ,کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی شخصیت جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ہمارے ذہن کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لیے مقید ہو جاتے ہیں وہ یادیں بن جاتی ہیں اور اگر یہ والدین کی ذات سے جڑی ہوں تو زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ بن جاتی ہیں ۔ میرے والد قمرالحسن قمر تین دہائیوں تک قوم کے بچوں میں علم کی روشنی بانٹتے رہے وہ اسکول کے لیے سخت گیر پرنسپل تھے ، اصولوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے مگر اپنے طالب علموں کے لیے ایک شفیق اور مہربان استاد کے روپ میں سائبان تصور کیے جاتے تھے۔آج ان کے ہاتھوں کے پڑھے ہوئے بچے مختلف شعبہ زندگی میں کار ہائےنمایاں انجام دے رہے ہیں ۔
میرے ذہن کے پردوں میں بھی اپنے والد سے متعلق یادیں محفوظ ہیں لیکن جب بھی انھیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو آنکھوں سے جاری آنسو مجھے کچھ لکھنے نہیں دیتے ،نظریں دھندلا جاتی ہیں الفاظ گڈمڈ ہو جاتے ہیں اور خیالات کی ایسی آندھی چلتی ہے جو مجھے میرے بچپن میں لا کھڑا کرتی ہے جب میں ایک چھ سال کی کمزور سی بچی تھی۔
مجھے یاد ہے اس وقت…
خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺپر حاضری ہر مسلمان کے دل کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ لیکن اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب تک رب کی طرف سے بلاوا نہیں آجا تا آپ نہیں جا سکتے۔ میرے اندر بھی یہ تڑپ موجود تھی کیونکہ بچپن سے ہی نعتیں پڑھنے کا شوق تھا تو دل میں ایک خواہش ہمیشہ جنم لیتی تھی کہ کاش یہ نعتیں نبیؐ کے روضہ مبارک پر کھڑی ہو کر پڑھ سکوں۔ لہٰذا جب بھی کسی کے عمرے پر جانے کا سنتی ، دل میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی دل شکوہ کناں ہو جاتا تھا کہ اللہ ان کا بلاوا تو آگیا میرا کب آئے گا ۔پھر اپنے دل کو تسلی دیتی تھی کہ شاید رب کو میرے مانگنے کا انداز پسند نہیں یا ابھی وقت نہیں آیا اس لیے دیر ہو رہی ہے۔ آخر کار سال 2023 ء میں اللہ نے دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور میری تڑپتی روح کو اپنے دربار میں حاضری کی اجازت دے ہی دی۔ بے شک وہ بڑا مہربان رب ہے جس نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے،میں بھی اپنے وقت مقررہ پر عمرے کے لیے روانہ…
یہ سن 1985ء کی بات ہے ہمارے پڑوس میں ایک خاندان آ کر آباد ہؤا،نثار صاحب ان کی اہلیہ حسنہ اور ان کے دو بچے، ایک بیٹا ایاز اور ایک بیٹی روبینہ۔
یہ بہت اچھی اور سلجھی ہوئی فیملی تھی۔ حسنہ آنٹی انتہائی خوبصورت، خوب سیرت ،با اخلاق اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ ان کی بیٹی روبینہ جو میری ہم عمر تھی وہ بھی اپنی امی کی طرح بہت پیاری اور خوش اخلاق تھی۔ جلد ہی ہم دونوں بہت گہرے دوست بن گئے ۔ میں اکثر اپنا ہوم ورک کرنے روبینہ کے گھر چلی جاتی تھی کیونکہ آنٹی ہوم ورک کرانے کے بعد ہمیں کہانیاں بھی سناتی تھیں۔لیکن جب بھی دسمبر کا ذکر آتا تو وہ بہت اداس ہو جاتی تھیں۔ ہم جب ان سے اداسی کی وجہ پوچھتے تو جواب دیتیں۔
’’بیٹا دسمبر دراصل ستم گر ہے….اس سے بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں ‘‘۔
سانحہ مشرقی پاکستان کو یاد کرکے وہ روتی تھیں۔آئیے ان کی کہانی انہی کی زبانی سنتے ہیں:
میرا نام حسنہ ہے۔ میری پیدائش مشرقی پاکستان کی ہے ۔جس وقت مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا اس وقت میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھی ۔ ہم چار بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ بڑی بہن کا انتقال بنگلہ دیش بننے سے…