حمیرا ترنم

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر – حمیرا ترنم

’’گڑیا بیٹے جاؤ ذرا سلمیٰ کے پاس جا کر میری رپورٹ بناکر لےآؤ ‘‘ امی نے مجھے اعدادوشمار سے متعلق کاغذات کا پلندہ تھماتے ہوئے کہا ۔
’’جی امی لیکن اس وقت تو دوپہر کا ایک بج رہا ہے اور شادباغ جاتے گھنٹہ اور لگ جائے گا تو دوپہر کے دو بجے میں ان کے پاس پہنچوں گی ۔ ان کے آرام کا وقت ہو جائے گا‘‘۔
’’نہیں بیٹے وہ اس وقت بچوں کو کھانا کھلاکرسلاکر فارغ ہوتی ہے تم چلی جاؤ‘‘۔
جی امی کہہ کر کاغذات کا پلندہ اُٹھایاورمیں ڈرائیور کے ساتھ سلمٰی حمید باجی کے پاس چل دی۔
امی جب لاہور کی ناظمہ تھیں تب سے ان کی رپورٹس اور لکھنے لکھانے کی ذمہ داری میری تھی۔ اور اسی وجہ مجھے امی کی پرنسپل سیکریٹری ہونے کا لقب بھی مل چکا تھا۔ کیونکہ اس کے ساتھ ایک اضافی خوبی یہ تھی جو امی کے لیےبہت سہولت کا سبب تھی کہ مجھے امی کے تمام فون نمبرز زبانی یاد تھے اور اس وجہ سے انہیں اپنی ڈائری دیکھنے یا کھنگالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی، اسی وجہ سے میں امی کی ڈائریکٹری بھی کہلاتی تھی۔ کچھ امی کی اور ابا جی کی لاڈلی بھی زیادہ ہی رہی (خوش فہمی!) اس کا فائدہ…

مزید پڑھیں