دروازہ ہلکے سے بجا ۔
شہلا اٹھ چکی تھی لیکن بستر جیسے ابھی اُسے جکڑے رکھنا چاہتا تھا ۔ اس نے نرم گرم روئی کے گالے جیسے کمبل کو سمیٹ کر زور سے بھینچا اور گہری سانس لے کر جواب دیا ۔
’’آجائیں بوا‘‘۔
چالیس پینتالیس سال کی موڈرن بوا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں ۔شہلاکو قدیم اور جدید کا امتراج اچھا لگتا تھا گھر کے لیے میڈ منتخب کی تو اسے پہلے دن ہی دوسری ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں بوا کہا جائے گااور وہ شہلا کو شہلا بی کہیں گی۔
وہ اس طرح اپنی خاندانی روایات سے جڑ کر رہنا چاہتی تھیں انہیں اچھا لگتا تھا ۔ جب اپنی کسی موڈرن سہیلیوں کے سامنے وہ میڈ کو بوا اور بوا اُن کو شہلا بی کہتیں تو انہیں اپنی سہیلیوں سے یہ کہنا بہت اچھا لگتا کہ یہ سب ان کے بزرگوں کی روایات ہیں۔
نادیہ ماچس والا ، میشاء سیٹھانی ، زرینہ مارکوس تو اتنے متاثر ہوتے کہ جتنے ان کی ڈرائینگ روم کی مہنگی اور حسین سجاوٹ سے نہ ہوتے جو وہ ہر سال بہت شوق سے تبدیل کرتی تھی۔ ہاتھی کے دانت کی نازک اور حسین بگھی چاندی کا تاج محل جس کے میناروں پر سبز…
رشیدہ نے باورچی خانے کے ساتھ بنی پڑچھتی پر تام چینی کے برتن ٹکائے ۔ صحن میں جلدی جلدی جھاڑو دی باقی دیگچیاں دھونے کا ارادہ چھوڑ دیا ۔ کمر سیدھی کر کے دل ہی دل میںکہا باقی برتن اماںہاجرہ پھوپھی کے گھر سے آکر خود ھو لے گی ۔رشیدہ نے باہر نکلنے سے پہلے صحن اور باورچی خانے کی طرف ایک تنقیدی نظر ڈالی۔’’ کام سارا نبیڑ تو لیا ہے‘‘۔
اماںنے کہا تھا خبر دار کام ختم کیے بغیر گھر سے باہر قدم نکالا۔
نوسالہ رشیدہ کا دل تو مامی صغراںکے ہاں ہی اٹکا رہتا تھا ۔ نیا نیا ٹیلی ویژن آیا تھا ۔ ماما پچھلے ماہ پورے ایک ماہ رہ کر واپس سعودیہ گیا تھا ، چلتی پھرتی تصویریں دیکھتے رشیدہ گم ہو جاتی ۔ جیسے اس کی روح اسکرین میںاتر گئی ہو اور جسم سامنے سن بیٹھااُسے تکے جا رہا ہے۔
اسکرین پر وہ گانا سنا جو مسافروں کو ادھر سے اُدھر لے جاتے ہوئے اس نے پہلی دفعہ ملنگا ٹانگے والے کو گاتے سنا تھا ۔ اسکرین پر سنا تو رشیدہ کی زبان پر چڑھ گیا ۔ مسعود رانا نے جیسے یہ گانا سارے ٹانگے والوںکے لیے ہی گایا تھا ۔ ٹانگہ چلاتے ہوئے ٹانگے والے گاتے تو دیہات…
علیزے کی چلبلاہت پورے خاندان میں مشہور تھی ۔ شوخ چنچل ہنسنے مسکرانے والی بات بات پر چٹکلے چھوڑتی ساری سہیلیاں اور چچا زاد خالہ زاد اس پر فدا اور وہ ان پر فدا ۔ جس محفل میں ہوتی باتوں کی آوازیں اور ہنسی بتادیتی کہ علیزے یہاںموجود ہے۔
کالج میں بھی سب کی سہیلی تھی اساتذہ کو بھی اس کا نام اور کام خوب پتہ تھے ۔ چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے سب کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ۔ ابھی انٹر کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ اسے کھونٹے سے باندھنے کا بندو بست ہو گیا ، لڑکے کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ پڑھا لکھا اور بھاری تنخواہ والا تھا ۔ دوسری دو بڑی خوبیاں علاوہ تھیں کہ مناسب عمر اور اکیلا … والدین دور… سب کی نظر میں تو جیسے علیزے کی لاٹری نکل آئی۔
جھٹ پٹ رشتہ طے ہؤا ۔ والدین رخصتی کے لیے مقررہ تاریخ سے پہلے آگئے ۔ تصویر دیکھ کر پہلے ہی خوشی سے حامی بھر لی تھی ۔ سارے خاندان والے علیزے کی قسمت کے گن گا رہے تھے ۔ رخصتی کی تاریخ اتنی جلدی آگئی یہ کوئی علیزے سے پوچھے ۔ یونیورسٹی جانے کا خواب لیے علیزے پیا دیس سدھار…