بتول اگست ۲۰۲۴تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب - بتول...

تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب – بتول اگست ۲۰۲۴

یادیں کیا ہوتی ہیں ؟کوئی ایسی بات ,کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی شخصیت جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ہمارے ذہن کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لیے مقید ہو جاتے ہیں وہ یادیں بن جاتی ہیں اور اگر یہ والدین کی ذات سے جڑی ہوں تو زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ بن جاتی ہیں ۔ میرے والد قمرالحسن قمر تین دہائیوں تک قوم کے بچوں میں علم کی روشنی بانٹتے رہے وہ اسکول کے لیے سخت گیر پرنسپل تھے ، اصولوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے مگر اپنے طالب علموں کے لیے ایک شفیق اور مہربان استاد کے روپ میں سائبان تصور کیے جاتے تھے۔آج ان کے ہاتھوں کے پڑھے ہوئے بچے مختلف شعبہ زندگی میں کار ہائےنمایاں انجام دے رہے ہیں ۔
میرے ذہن کے پردوں میں بھی اپنے والد سے متعلق یادیں محفوظ ہیں لیکن جب بھی انھیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو آنکھوں سے جاری آنسو مجھے کچھ لکھنے نہیں دیتے ،نظریں دھندلا جاتی ہیں الفاظ گڈمڈ ہو جاتے ہیں اور خیالات کی ایسی آندھی چلتی ہے جو مجھے میرے بچپن میں لا کھڑا کرتی ہے جب میں ایک چھ سال کی کمزور سی بچی تھی۔
مجھے یاد ہے اس وقت ہمارے گھر میں ایک بڑا سا صحن ہوتا تھا جس میں سوہانجنے اور پپیتے کے درخت تھے ،ایک طرف سدا بہار کے پودے تھے اور دوسری طرف امی نے لوکی کی بیلیں لگائی ہوئی تھیں جو آپ نے چھت پر چڑھا دی تھیں اور اس سے اتری ہوئی لوکی محلے کے ہر گھر میں بھائی کے ساتھ مل کر میں بانٹا کرتی تھی۔ ابو کی عادت تھی کہ رات کے کھانے کے بعد گھر سے باہر ٹہلنے جاتے تھےان کے جاتے ہی میں اپنے پاؤں پلنگ کے اوپر کر کے بیٹھ جاتی تھی کہ کہیں کوئی نیچے سے میرا پاؤں نہ کھینچ لے (کیونکہ اس وقت مجھے چوروں،ڈاکوؤں اور جنوں بھوتوں سے بہت ڈر لگتا تھا) اوردعا کرتی رہتی تھی کہ ابو جلدی سے گھر آ جائیں. جیسے ہی دروازہ کھلتا اور آپ کی آواز سنتی تو چھلانگ مار کر بستر سے اترتی تھی اور زوردار آواز میں پلنگ کے نیچے جھانک کر کہتی‘‘ اے چوراگر ہمت ہے تو میرے سامنے آؤ اب میرے ابو گھر آ گئے ہیں اب مجھے کوئی ڈر نہیں لگ رہا‘‘ اسی طرح درخت کے سامنے کھڑے ہو کر ان دیکھی مخلوق سے مخاطب ہو کر کہتی’’اے جن میرے ابو گھر میں ہیں اب تم مجھے نہیں ڈرا سکتے‘‘۔ حالانکہ امی رات کو درخت کے نیچے کھڑے ہونے سے منع کرتی تھیں لیکن میرے لیے تومیرے ابو سپرمین تھے ان کے ہوتے ہوئے میں خود کو بالکل محفوظ تصور کرتی تھی ۔
مجھے یاد ہے گرمیوں کی راتوں میں ہم سب صحن میں بستر لگا کر سویا کرتے تھے اوپر تاروں بھرا آسمان دیکھ کر میں بہت خوش ہوتی تھی ابو سے پوچھتی،ابو یہ تارے دن میں کیوں نہیں نظر آتے؟کبھی پوچھتی یہ تارے کب سے چمک رہے ہیں ان کی روشنی ختم کیوں نہیں ہو رہی؟ بادلوں کو تومیں کسی نہ کسی جانور سے تشبیہہ دیتی تھی کبھی وہ مجھے اونٹ لگتے کبھی ہاتھی، ان کے بارے میں ایک بار میں نے پوچھا ابو یہ سارے جانور نما بادل کہاں بھاگے جا رہے ہیں ؟ ان کا دیا ہؤا جواب آج بھی جب میں یاد کرتی ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے کہ ’’بیٹا یہ سارے جانور سمندر کے کنارے جا رہے ہیں وہاں یہ لمبی سانس لے کر اپنے منہ میں پانی بھریں گے اور جہاں ضرورت ہوگی وہاں برسا دیں گے‘‘ اور جب میں خود ماں بنی تو مجھے معلوم ہوا کہ بچوں کے سوالات کے جوابات ان کی سطح پر آ کر کیسے اور کیوں دیے جاتے ہیں ۔
اپنی کتاب زندگی کا اگلا صفحہ پلٹتی ہوں تو وہ وقت یاد آتا ہے جب بھائی کے ساتھ مل کر گھر میں خوب شرارتیں کیا کرتی تھی ایسے میں امی ہمیں ڈراتے ہوئے کہتی تھیں’’ آنے دو تمہارے ابو کو، ان سے ساری شکایت کروں گی‘‘ اور ہم فوراً دوسرے کمرے میں چھپ جاتے تھے لیکِن اتنا یقین ہوتا تھا کہ ابو ہمیں نہیں ڈانٹیں گےکیوںکہ یہ الفاظ صرف ہمارے دل میں آپ کا رعب بٹھانے کے لیے امی استعمال کرتی تھیں گویا یہ ہماری تربیت کا حصہ تھا کہ’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نظر سے‘ اور یہ آپ کارعب ہی تھا جس نے ہم دونوں بھائی بہن کو زندگی کی شاہراہ پر کبھی بھی ڈگمگانے نہیں دیا۔(معذرت کے ساتھ ،آج کل بچوں کی تربیت میں یہ عنصر نا پید ہوتا جا رہا ہے)
مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے جب سات سال کی عمر میں اپنا ہاتھ فریکچر کروا بیٹھی تھی اور آپ مجھے گود میں لے کر ہاسپٹلز کے چکر لگایا کرتے تھے اور جب 11 سال کی عمر میں مجھے بخار نے دبوچا تھا , ڈاکٹر کبھی بلڈ ٹیسٹ کرواتے کبھی ایکسرے کرواتے لیکن ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اس وقت آپ کا میرے لیے پریشان ہونا میں کیسے بھول سکتی ہوں خاص کر آپ کا وہ جملہ تو مجھے آج بھی رلاتا ہے’’بیٹا میں اپنے خون کا آخری قطرہ دے کر تمہیں بچا لوں گا‘‘ اور اس کے بعد جائے نماز پر آپ کا گڑگڑانا اور میرا صحت یاب ہو جانا یہ سب کسی معجزے سے کم نہیں ۔
میری زندگی کا ایک یادگار لمحہ وہ بھی ہے جب مجھ سے پہلی بار گول اور پھولی ہوئی روٹی بنی تھی تو میں نے خوشی میں نعرہ لگایا تھا’’ امی دیکھیے میری روٹی پھول گئی‘‘ اس وقت ابوگھر میں داخل ہو رہے تھے ،سیدھے میرے پاس آئے آپ ایسے خوش ہو رہے تھے جیسے میں نے کوئی کارنامہ انجام دے دیا ہو جیب سے فوراً پانچ روپے (آج کے پانچ ہزار روپے ) نکال کر میرے ہاتھ پہ رکھا اور میری خوشی کو دوبالا کر دیا۔
پیارے ابو! میں آپ کی کیا کیا باتیں یاد کروں ابھی تو میں بچپن سے ہی باہر نہیں نکل پا رہی۔ اپنی گرمیوں کی چھٹیاں بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں کیونکہ میرے ساتھ ساتھ آپ کے اسکول کی بھی چھٹی ہؤا کرتی تھی۔ ان چھٹیوں میں آپ کا نعتیں سننا اور سنانا،ہمیں انگلش گرامر سیکھا نا ، ہمارے ساتھ لڈو اورکیرم کھیلنا، سیر کے لیے چڑیا گھرلے کر جانا…. ایک ایک لمحہ میرے حافظے میں آج تک محفوظ ہے۔
کب بچپن رخصت ہؤا اور جوانی نے دستک دی، اور جیسے ہی تعلیم مکمل ہوئی تو آپ نے سنت نبوی ادا کرتے ہوئےمجھے پیا دیس سدھار دیا۔ شادی کے بعد جب میں بچوں کے ساتھ میکے آیا کرتی تھی تو آپ کا امی کو آواز لگانا ’’ارے کہاں ہو دیکھو ہماری وٹامن کی گولیاں (میں اور بچے)آگئی ہیں‘‘ آج بھی میری سماعتوں میں گونجتا ہے۔
امی کے انتقال کے تیرہ سال بعد8 مئ 2017 کو ابو بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے 7 سال ہو گئے لیکن اب بھی یقین نہیں آتا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی میرا انتظار کر رہے ہیں میں جاؤں گی تو انہیں بستر پر لیٹا پاؤں گی….. مگر بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اس نے انھیں چلتے پھرتے اپنے پاس بلا لیا ۔
ابو کہا کرتے تھے’’ ہمیشہ نیم کا درخت بننےکی کوشش کرو جو دوست اور دشمن سب پر یکساں سایہ فگن رہتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ کسی صلے اور ستائش کی تمنا کیے بغیر خیر و بھلائی کرتے رہو،اس کا اجر اللہ دیتا ہے‘‘آپ کی ان تمام باتوں کو میں نے گرہ میں باندھ لیا ہے اور حتی الامکان عمل کی بھی کوشش کرتی ہوں،مطالعہ کی عادت اور لکھنے کا شوق بھی مجھے آپ سے ہی ورثہ میں ملا ہے۔4 مئ 2024 کو رائٹرز ایوارڈزکی تقریب میں انعام دینے کے لیے جب میرا نام پکارا گیا تو ’ابو ،آپ مجھے بہت یاد آئے‘ اللہ سے دعا ہے کہ میں آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جہاں تک میری بساط ہو خیر پھیلاؤں اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنوں۔ آمین
یہ کامیابیاں،عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے ،مقام تم سے ہے
تمھارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
کہاں بساطِ جہاں اور میں کمسن و ناداں
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here