ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول اپریل ۲۰۲۲

قارئین کرام ! جس وقت یہ پرچہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا آپ رمضان المبارک کی نعمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہورہے ہوں گے ۔ ہم سب کو اس ماہ مبارک کی آمد مبارک ہو اور ساتھ ہی عید سعید کی خوشیاں ہمارے نصیب میں ہوں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رمضان کا مہینہ ہمارے ملک پاکستان اور عالم اسلام کے لیے رحمتوں اور خوشیوں کی بہار لے کر آئے ( آمین )
رب کریم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنی زندگی میں ایک بار پھر اس نعمت سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا ۔ دل باغ باغ ہر سو رمضان کا جشن منایا جا رہا ہے … ہر کوئی دورہ قرآن سے فیض یاب ہو رہا ہے کیوں کہ یہ سنت رسولؐ ہے قیام اللیل کا اہتمام کیا جا رہا ہے …لیلۃ القدرمیں تمام رات جاگنے کا اہتمام ہے،اعتکاف کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کیونکہ یہ سنت رسولؐ ہے…
اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے بخیل شخص بھی کچھ نہ کچھ خیرات کرتا دکھائی دیتا ہے ہر کوئی انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ شب بیداریوں کا اہتمام ہے ، نمازوں میں خشوع و خضوع ہے۔ذکر اذکار کی مجلس سجائی جا رہی ہے ۔ سحری اور افطاری کے شاندار انتظامات اس ماہ کی رونق کو بڑھارہے ہیں۔
اول وقت کی نمازیں ، اشراق ، چاشت، اوابین ،قیام اللیل، استغفار ، درود شریف ، تسبیحات قرآنی دعائوں کو یاد کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے بہترین اخلاق پیش کیے جا رہے ہیں جیسے سلام میں پہل ،خوش مزاجی ، نرم خوئی ، گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کیا جا رہا ہے ۔ شب بیداریوں میں رو رو کر گڑ گڑا کر اللہ سے التجائیں کی جا رہی ہیں۔اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمام کوششیں مطلوب ہیں ، غیبت ،جھوٹ ، دل آزاری ، فحش گوئی سے بچا جا رہا ہے ۔ اپنے ارد گرد کے غرباو مساکین ، فقراء اور دور دراز کے عزیز و اقرباء کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے ۔ اپنے کشمیری ، افغانی اور فلسطینی بھائیوں کو بھی امداد بھیجی جا رہی ہے ۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے کہیں تو کچھ خرابی ہے ؟ کوئی تو کمی ہے … یہ تو سب ظاہری عبادتیں ہیں ۔ ظاہر کو تو سجا لیا مگر باطن کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔دل تو کینہ ، بغض ، نفرت ، حسد ، دشمنی ، تکبر اور ریا سے بھرے پڑے ہیں ۔ جب تک دلوں کی یہ سیاہی دور نہیں ہو گی نہ تو کوئی عمل قبول ہو گا اور نہ ہی کوئی دعا ۔ اپنے باطن کو چمکائیں تاکہ یہ جسمانی مشقت ہماری روحانی بلندیوں کا موجب بن سکے ۔ابھی رمضان کی شروعات ہے آج سے عہد کریں ، اپنے دلوں کو خوبصورت بنا لیں یعنی سب کو معاف کریں ۔پھر دیکھیں کیسے پل بھر میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ رمضان کے اس مقدس مہینے کی اہمیت کو سمجھیں اور ان کا موں پر عمل درآمد کریں تاکہ یہ مختصر سے دن ہمارے سنہری دن بن جائیں ۔ اللہ ہم سب کو ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس ماہ کی برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )۔
معزز قارئین ! ہمارے ملک میں سیاسی سر گرمیاں عروج پر ہیں ان کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے یہ عنقریب معلوم ہو جائے گا لیکن گزشتہ دنوں میں ہمارے سیاسی اکابرین کی طرف سے جس قسم کی اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا گیا وہ انتہائی قابل افسوس ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف جس قسم کی زبان استعمال کی گئی ، وہ ایک اسلامی ملک کے لیڈروں کو ہر گز زیب نہیں دیتی ۔ وقار ، متانت، سنجیدگی ، برداشت ، خوش گفتاری، شرافت ، شائستگی کہیں نظر نہیں آئی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک اور قوم کی فلاح اور بہبود کے برعکس ہر کسی کے سامنے اپنا ذاتی مفاد ہے۔ وزارتوں کے لالچ میں وفا داریاں تبدیل کی جا رہی ہیں ۔ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں ۔ یعنی ایک منڈی لگی ہوئی ہے جہاں انسان بِک رہے ہیں۔
جو ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور جس کے قیام کا واحد مقصد قائد اعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ نے یہ بیان کیا تھا کہ یہاں اسلامی نظام قائم کیا جائے گا ، اسلامی قوانین نافذ ہوں گے وہاں اب ہمارے یہ باہم دست و گریبان لیڈر اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی شرماتے ہیں ۔ گزشتہ پچھتر سال میں ہمارے کسی بھی حکمران نے تخلیقِ پاکستان کا مقصد حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ اس کے راستے میں رکاوٹیں ہی ڈالی ہیں ۔ طاغوتی تہذیب، فحاشی اور بے حیائی کو فروغ ملا ہے ۔ جرائم میں اضافہ ہؤا ہے ۔
وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تو ہر آنے والی حکومت نے اس کی مزاحمت کی۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کیں۔ اللہ کے حکم کے آگے سر جھکانے کی بجائے اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرنے کا راستہ اپنایا۔ ایسے راستے پر چل کر یہ قوم کیسے فلاح پا سکتی تھی ؟ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔
معاشی بد حالی ،غربت ،اربوں ڈالر کے بیرونی قرضے ، بے روز گاری، بھوک، افلاس ، جرائم کی بھرمار ،اخلاقی زوال ، ذلت و رسوائی ، دہشت گردی ، یہ سب اس قوم کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ عوام ہمیشہ نیک، با اخلاق ، با کردار ، دین دار ، بے داغ سیرت کے لوگوں کی بجائے بے دین اور بد کردار سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کرتے رہے ۔ پھر جیسا بیج بویا جائے گا فصل تو ویسی ہی کاٹنی پڑے گی ۔ اس ساری خراب صورتحال کا علاج تو یہی ہے عوام اپنے حکمران منتخب کرتے وقت ذاتی مفاد ، لالچ ، برادری ، کو نظر انداز کر کے خود اپنے فائد ے اور ملک کے مستقبل کی خاطر نیک اور با کردار ، با صلاحیت نمائندوں کو ووٹ دیں جو اس ملک کی تخلیق کے مقصد کو پورا کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی ۔ اس میں ہماری دینوی فلاح بھی مضمر ہے اور آخرت کی نجات بھی۔
طالب دعا
آسیہ راشد

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x