قارئینِ کرام سلام مسنون!
وہ موسم ہے کہ بارشیں ختم ہیں اور فضاؤں میں ٹھہری ہوئی گرد کا راج ہے۔ فضا میں آلودگی کا پیمانہ روزبروز بڑھے گا، گلے اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوگا اور جب تک بارش نہ ہوگی ہوا صاف نہ ہوگی۔لاہور ابھی سے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آگیا ہے، آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
گرد شہری ہوا میں ہی نہیں سیاسی فضا میں بھی ہے۔ معروف صحافی کا اندوہناک قتل ایک ایسا سانحہ ہے جس نے صرف آزادیِ اظہار ہی کا گلا نہیں گھونٹا بلکہ آنے والے حالات کے بارے میں بھی شدید تشویش اور اندیشوں کی گرد اُڑا دی ہے۔کئی دیگر صحافیوں کی بھی ملک چھوڑنے کی اطلاعات ہیں۔ حالات ایسے بنا دیے جائیں کہ محض رائے دینے کے نتیجے میں جھوٹے مقدمات قائم ہو جائیں یہاں تک کہ ملک چھوڑنا پڑے تو یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ عمومی طور پہ بے چینی بلکہ خوف پایا جاتا ہے۔دوسری طرف لانگ مارچ کی صورت میں بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کیا جارہا ہے۔اس وقت فوری انتخابی اصلاحات اور اس کے بعد شفاف قومی انتخابات واحد راستہ ہے کہ بہتری کی کوئی امید ہو سکتی ہے۔
توشہ خانہ کیس کا فیصلہ تو آگیا اب انتظار ہے کہ یہ احتساب ہر اس شخص کا ہو جو توشہ خانہ کو ذاتی مال سمجھ کر فائدہ اٹھاتا رہا۔مگر پھر توشہ خانہ ہی کیوں؟ یہ مچھر چھاننے اور اونٹ نگلنے کا کام کس کو احمق بنانے کے لیے کیا جائے، کیونکہ اگر یہ احتساب ہو نا ہےتو پھر قومی خزانہ لوٹنے والوں، باہر جائیدادیں بنانے والوں، پاکستانیوں کا محنت سے کمایا ہؤا سرمایہ لوٹ کر باہر کے بنکوں میں منتقل کرنے والوں کا احتساب کیوں نہ ہو؟ جنہوں نے کئی عشروں تک اس مملکتِ خدادادکی حکمرانی کو اپنی جاگیریں وسیع کرنے اور کاروبار پھیلانے کا ذریعہ سمجھے رکھاان سے حساب کیوں نہ مانگا جائے؟مگر حساب مانگناتو دور کی بات،افسوس تو یہ ہے کہ ماضی کے تمام مجرم آج پھر پاک صاف ہوکر ملک پہ مسلط ہیں۔ایک غیر مقبول ہوتی حکومت کو مدت سے پہلے ہٹاکرہیروبنادینے سے ملک کو فائدہ تو کیا ہوتا ،الٹا اس کے بعد سے اب تک جو کچھ ہورہاہے وہ اتنا مایوس کن ہے کہ مستقبل کی تصویر بالکل دھندلا گئی ہے۔تبدیلی حکومت کے وعدہِ فرداکی تو قوم منتظر ہی رہی مگراب جوتبدیلیِ معکوس ہوئی اس کا سیدھا مطلب جیل کا دروازہ کھل جانا ،مقدمے ختم ہوناتھا،اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ لفافہ صحافت کے سر پہ دستِ شفقت اور باضمیر صحافت کے لیے خوف ۔اس کا مطلب تھا بیرونی ایجنڈوں کی فتح اور عام پاکستانی کی شکست۔اس کا مطلب تھا ملکی وسائل کی وہی لوٹ مار اور کھایا پیا ہضم، ریکارڈ جلا کر سب ختم، اس کا مطلب تھاایان علی اورمقصود چپراسی،ایون فیلڈ اور پانامہ،دو خاندان اور ان کی نسلیں،امریکی آشیر بادکی طلب اور بھارت کی بالادستی۔ ایک بار پینتیس سال کی گندگی تو ماضی کا حصہ بن جاتی، سیاست میں فیئر پلے کا رواج آنے لگتا، میزان قائم ہوتا،ضمیر کی آواز اور قلم کی سیاہی آزاد ہوتی،بندوق اپنی حد کو پہچانتی، جغرافیائی کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت کرتی رہتی تو رفتہ رفتہ بہتری آنے لگتی۔مگر اپریل کے بعد سے جو ہؤا اس نے اس یقین کو لرزا کر رکھ دیا۔ بچپن میں قیدی قیدی کھیلتے تھے تو جب سارے چور پکڑ لیتے کامیابی دو قدم ہوتی تو پیچھے سے چوروں کا ایک ساتھی آنکھ بچا کرآتا اور انہیں چھڑاکر لے جاتا،ساری محنت اکارت جاتی اور چور پھر میدان میں دندنانے لگتے۔ آج اکثر پاکستانی اسی کیفیت میں ہیں۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات تیسری بار ملتوی کردیے گئےہیں۔الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت مل جل کرمسلسل انتخابات کو ٹالنے کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔کراچی جیسے بڑے اور اہم شہر میں جس طرح مسائل کے انبار تلے شہری زندگی گزار رہے ہیں، یہ اہلِ کراچی ہی کی ہمت ہے۔کئی عشروں کی بھتہ خوری، قتل وغارت گری، اور ڈاکو راج نے روشنیوں کے شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔اللہ کرے اس شہرکے معاملات ایک بار پھرمخلص اور
نت دار افراد کے ہاتھوں میں آئیں،اہلیان ِکراچی پر زندگی آسان ہو،عوامی مسائل حل ہوں، شہر ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرے آمین۔
پروین سیف کے اشعارہمارے حسبِ حال ہیں۔
جواز کچھ بھی نہ ملتا کسی بھی گل چیں کو
چمن کے پھول جو سب حفظ ِآبرو کرتے
نہ آیا ان کی سمجھ میں مرا کلام کبھی
تمام عمر ہوئی شرحِ آرزو کرتے
سینیٹر مشتاق احمدخان اور دیگرحلقوں کی کوششوں کے نتیجے میں ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں نظر ثانی ہورہی ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل،علمائے کرام اور طبی ماہرین کو شامل کرکے متبادل بلوں پر غور شروع کردیا گیا ہے۔وفاقی شرعی عدالت میں کیس کی سماعت پر بھی پیش رفت جاری ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ اس بل کی متنازعہ شقوں میں تبدیلی یا نئے بل کی منظوری ہوسکے گی۔ مزید افسوس ناک واقعہ یہ ہؤا کہ اس بل کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والے وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نور محمد خان مسکانزئی کو دہشت گردوں نے شہید کردیا۔سود کے خلاف فیصلہ دینے والے بھی یہی تھے، اللہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں ان کی شہادت کو قبول فرمائے آمین۔اس بل پر تحفظات کے نتیجے میں وسیع پیمانے پرایک آگاہی مہم بھی شروع ہوچکی ہے، خصوصاً سوشل میڈیا پر بہت کھل کر اس کے مضمرات پر بات ہورہی ہے۔ البتہ الیکٹرانک میڈیا پر اب بھی بین الاقوامی اداروں اور فنڈنگ ایجنسیوں کا اس قدر دباؤ ہے کہ زیادہ تر مخصوص قسم کے افراد کو نمایاں کیا جاتا ہے جو پاکستان میں اس تحریک کے لیے کام کررہے ہیں۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ عورت مارچ، مورت مارچ اور رین بو تحریک ایک ہی ایجنڈے کے مختلف مراحل یا مختلف شکلیں ہیں جس کا بنیادی مقصدکسی طبقے کی بھلائی نہیں بلکہ مخصوص نظریات کا فروغ ہے جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اکثریت کےمعاشرے میں انارکی پھیلے۔
اسی سلسلے میں صنفی شناخت نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو الحمدللہ اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے مستقل اور کچھ نئےقلمکاروں نے اپنی خصوصی تحریروں کے ذریعے اس میں شرکت کی ہے۔یہ ایک مشکل موضوع تھا جس کی تفہیم ابھی بہت عام نہیں ہے، ایک نیا معاشرتی مسئلہ ہے۔ ایسے موضوع کو ایک طرف ادبی اور تخلیقی پیرائے میں ڈھالنا فنی مہارت کا متقاضی تھا تودوسری طرف معاشرتی فرق کی بنا پراس کو بیان کرنےکے آداب و اسلوب کو ملحوظ رکھنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔مجھے خوشی ہے کہ ہم بے حدکم وقت میں ایک مکمل شمارہ نکالنے کے قابل ہوسکے ۔میں محترمات ڈاکٹر میمونہ حمزہ، عابدہ فرحین اور تزئین حسن کی بطورِخاص ممنون ہوں کہ انہوں نے اس شمارے کے لیے بنائے گئے گروپ میں موضوع پر گفتگو اور تبادلہ خیال کے ذریعےمختلف پہلوؤں پر بات کی اور پھرتحاریر لکھنے میں بھی اپنا حصہ ڈالا،خصوصاً تزئین حسن کا تفصیلی رپورتاژ جو دو حصوں میں مکمل ہوگاایک اہم مسئلے کی نشاندہی کررہا ہے۔ محترمہ شگفتہ عمر نے ہماری ضرورت کے مطابق اس موضوع کا احاطہ کیا۔ادارہ بتول کے بورڈ کی ممبران محترمہ شاہدہ اکرام اور محترمہ آسیہ راشد اپنے نئے افسانوں کے ساتھ شامل ہوئیں۔ محترمات قانتہ رابعہ، بشریٰ تسنیم اور افشاں نوید نےبتول کی مستقل قلمکار ہونے کے ناطےشمولیت کی۔ محترمہ ندا اسلام حال ہی میں ہمارے ساتھ شامل ہوئی ہیں پختہ اندازِ تحریر رکھتی ہیں (گزشتہ شمارے کی فہرست میں ان کا نام سہواً غلط درج ہوگیاتھا قارئین درستی فرما لیں)،محترمہ طلعت نفیس بھی ایک کہانی کے ساتھ موجود ہیں۔ محترمات سمر ہ ملک اور مسرت جبین پہلی بار بتول کے لیے لکھ رہی ہیں۔ محترمہ اسما اشرف منہاس کے ناول کی دوسری قسط بھی موجود ہے۔
ان قیمتی تحریروں پرآپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
دعاگو،طالبہِ دعا
ڈاکٹرصائمہ اسما