محترم قارئین سلام مسنون!
اپریل میں مئی کی اور مئی میں جون کی گرمی سہنے کے بعد اب جون میں کیا گزرے گی، یہ دیکھنا ہے۔کرونا کے بعد پہلے حج کی آمد ہے۔بیت اللہ کی رونقیں بحال ہوں گی، لبیک کی صدائیں گونجیں گی، عشاق کے قافلوں کی مانوس گرد اڑے گی،مکہ مدینہ کی ویرانیاں چھٹ جائیں گی، دعاؤں سے فضائیں معمور ہوں گی،صفا مروہ بانہیں پھیلائیں گے، صحرااپنا دامن کشادہ کردے گا،میدان عرفات سجے گا، مزدلفہ کا بچھونا آراستہ ہوگا،، منیٰ کی بستیاں بس جائیں گی اور ہر طرف شمعِ توحید کے پروانوں کا راج ہوگا، الحمدللہ۔ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا بسایا ہؤاوہ خطہ جس کوہمارے نبیِ رحمتﷺ نے دوبارہ توحید کا مرکز بنایا۔
عرب جس پہ صدیوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
ملکی حالات کی بے یقینی بدستور باقی ہے۔ سب کی نظریں انتخابات پر تھیں مگر اعلان یہ ہؤا کہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ معیشت سنبھالی نہیں جارہی اور جہاز بھر بھر کر بیرونی دورے جاری ہیں۔ بجلی کا شارٹ فال مزید بڑھ جانے سے شدید لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، اوپر سے یونٹ کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے۔پٹرول بم گرچکا ہے ۔مگر عوام میں چیخنے کی بھی سکت نہیں۔ ایک مایوسی کی سی کیفیت ہے اور امید ہے تو صرف معجزے کی!
زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج
نہ جانے کون سے محور پہ کس مدار میں ہیں
اڑائی تھی جو گروہِ ہوس نہاد نے دھول
تمام منزلیں اب تک اسی غبار میں ہیں
تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ سے پہلے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ ، راستوں کی بندش اور پھر شرکا پر لاٹھی چارج اور بدترین شیلنگ نے بھٹو دور کے فاشزم کی یاددلادی۔بلکہ دور کیوں جائیں، نوے کی دہائی میں نواز شریف کی ــ’’جمہوری حکومت‘‘ نے قاضی حسین احمد مرحوم کی قیادت میں جماعت اسلامی کے جلوسوں کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔اُس دور کے ظلم پر مبنی تصاویر اور ویڈیوز موجودہ احتجاج کے دوران سوشل
میڈیا پر شیئر ہوتی رہیں۔ اس بار ڈی چوک اسلام آباد اور لبرٹی چوک لاہور میں فیملی سمیت اکٹھے ہوئے مجمعے کو پولیس نے شیلنگ کا نشانہ بنایا۔ احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے جس کو طاقت کے ذریعے دباناآئین کی رو سے جرم ہے۔موجودہ حکومت پہلے ہی عوامی حمایت کے اعتبار سے اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔ایسے ہتھکنڈے اس کے لیے مزید مسائل پیدا کریں گے۔
دل غم و غصے کی کیفیت میں ہے۔ بھارتی عدالت نے حریت رہنما یاسین ملک کو کئی گھڑے ہوئے مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے دس لاکھ جرمانے کے ساتھ دو بار سزائے عمر قیدسنا دی ہے۔گزشتہ ستر سال کی ریاستی دہشت گردی بھی ان حریت پسندوں کے حوصلے پست نہیں کر سکی۔ مقبوضہ علاقے کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کو تین برس ہونے کو ہیں۔ تب سے اب تک ہرروز نہتے کشمیریوں پر کوئی نئی قیامت ٹوٹتی ہے۔ یوں تومودی کی دہشت گرد حکومت کے تحت پورے ملک میں ہی انسانی حقوق کی صورتحال شرمناک ہے مگر کشمیری عوام کی جدوجہد سے وہ خاص طور پہ خوف زدہ ہے۔ نہتے شہریوں کو ماورائے عدالت مارنا ایک معمول بن گیا ہے۔بڑی تعداد میںہندؤوں کو لاکر بسایا جارہا ہے۔مودی کے ہندتوا کے نظریے نے صرف مسلمان نہیں ہر اقلیت کے لیے بھارت کو جہنم بنا دیا ہے۔ حریت رہنما نے سزا کے فیصلے کا ہمت سے سامنا کیا اور اپنے عزم میں لغزش نہیں آنے دی۔اس کی طاقت کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے منحنی وجود سے پوری ریاست خوف زدہ ہے۔
بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن امن وعافیت سے انجام پائے۔گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی تحریک نے کامیابی حاصل کی ہے جو کئی اعتبار سے خوش آئند ہے ۔ بلوچستان کی وڈیرہ شاہی اور خاندانی سیاست کے بیچ یہ عوام کے لیے عوام کی برپا کی ہوئی تحریک ہے۔اس کی قیادت مخلص اور باکردار شخص کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی بنیاد عوامی مسائل کے حل کی کوششوں پر ہے لہٰذا توقع ہے کہ مقامی آبادی کے حقوق کی ضامن ہوگی۔
کراچی یونیورسٹی میں بلوچ عورت کا خودکش حملہ اور تین چینی اساتذہ کی ان کے ڈرائیور سمیت ہلاکت کا واقعہ ہلا کر رکھ دینے والا ہے۔ علیحدگی پسند عناصر کی مذموم سرگرمیوں کے باعث بلوچستان کے حالات ایک بار پھر قابو سے باہر ہورہے ہیں۔اپنے صوبے کی آبادی کو دشمن کے اکسانے کا موقع ہم خود دیتے ہیں۔مزید تاخیر سے پہلے مسائل کا سیاسی حل ڈھونڈنا اور افہام و تفہیم پیدا کرنا ضروری ہے۔جہاں حق تلفیاں اور بے انصافی ہو، ظلم پر دادرسی نہ کی جائے ،وہاں نفرتیں پنپتی ہیں جن کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے۔
اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی، دعاگو، طالبہ دعا
صائمہ اسما