یہ شہر جو آج مدینۃ النبیؐ،طیبہ، مدینہ منورہ، مدینہ طیبہ اور تقریباً دیگر سو ناموں سے موسوم ہے کہا جاتا ہے کہ پہلے یثرب کہلاتا تھا کیوںکہ یہ حضرت نوح ؑکی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروںمیںآباد ہوئی تو یثرب نے اس سر زمین میں قیام کیا ۔ ویسے اس روایت کو تقویت عمالقہ کے یہاںمقیم ہونے سے بھی ملتی ہے ۔ یہ حضرت نوحؑکی کشتی پر سوار وہ لوگ تھے جوکفر وشرک اختیار کرنے کے بعد بابل سے مدینہ کی طرف آ بسے تھے اور انہوں نے زراعت کے پیشے کو اپناتے ہوئے یہاںبکثرت کھجوروں کے درخت لگائے یہ مسام بن نوح کی اولاد میں ہو گئے ۔ اس وقت ان کا بادشاہ ارقم تھا جب حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر و شام کو فتح کیا اور دیگر علاقوں کی تسخیر کے لیے بنی اسرائیل کو روانہ کیا تو ایک گروہ نے عما لقہ کے تمام مردوں کو بشمول بادشاہ کوقتل کر دیا اور یہیںآباد ہوگئے ۔ اس طرح یہود کی مدینہ میں آباد کاری ہوئی۔
بنی اسرائیل کے یہاںٹھہرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ توریت میں آنے والے پیغمبر کی ہجرت مدینہ کی پیش گوئی موجود تھی چنانچہ انہوں نے پیغمبر کے استقبال کی خاطر یہاںقیام کو ترجیح دی ۔یہود کے علاوہ حضوراکرم ؐ کی آمد سے قبل مدینہ میںموجود دیگر دو قابل اوس اورخزرج ہیںجن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اصلاً یمن کے باشندے تھے ۔ جب مصراورشام پر رومی افواج کا تسلط قائم ہوگیا اور یمن کے تجارتی راستے مسدود ہوئے تو عمران بن عمرو مزیقاءکے مشورے سے یہ لوگ پہلے یمن میں بھٹکتے رہے پھر بالآخر شمال کا رُخ کر کے حجاز میںداخل ہوئے ۔ شیخ عبد الحق لکھتے ہیں کہ جب انہیں کثرت حاصل ہوئی تو مدینہ کی طرف کوچ کیا اوراسی کو اپنا وطن بنا لیا اس کی نسل سے اوس اور خزرج ہیں جو ثعلبہ کے صاحبزادے حارثہ کے بیٹے ہیں ۔ ان دونوں خاندانوں کو ترقی نصیب ہوئی تو یہود اور بالخصوص قریظہ نورنفیر نے ان کی عزت و آبرو ، مال و اسباب غصب کرنا شروع کر دیا جب ظلم و ستم کی فریاد ابو جلیلہ تک پہنچی تو ان کی مدد کو آیا اور یہود کو شکست دی ۔ جس کے بعد یہوداخوت و مساوات کے تحت اوس و خزرج کے ساتھ رہنے لگے ۔ ازاں بعد اوس و خزرج کے مابین آتشِ جنگ بھڑکی جوایک صدی سے زائد عرصے تک جاری رہی جس کا خاتمہ سرورِ کائنات ؐ کی آمد کے بعد ہوا۔
یمنی حکمراں تبع تسخیر ممالک شرقیہ کے لیے نکلا تو اس کا گزر مدینہ سے ہؤا ۔یہاں کے لوگوں اے اس کے بیٹے کو بد عہدی سے قتل کر دیا جس کی اطلاع پا کر وہ واپس لوٹا اور یہ عہد کیا کہ وہ اس شہر کو تباہ وبرباد کر دے گا ۔ اس موقع پر یہود کے بعض علماء اس کے سامنے آئے اور کہا کہ یہ شہر حفاظت الٰہی میںمحفوظ ہے اسے کوئی شخص برباد نہیں کر سکتا ۔ ہم نے اپنی کتاب میں اس کے اوصاف پڑھے ہیںاور اس کا نام طیبہ ہے ۔ یہ پیغمبر آخر الزماں ؐ کا دارالہجرت ہے جو حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد سے ہوں گے آپ اس کی ویرانی کا خیال تک دل میں نہ لائیں اور اپنے ارادہ سے باز رہیں ۔ تبع اس بات کو سن کر اپنے خیال سے باز آیا۔
یہی نہیں وہ علماء کی تعظیم کرنے لگا ان کے رہنے بسنے اور آرام کا انتظام کیا اورخاتم النبینؐ کے لیے بھی ایک مکان تعمیر کرایا اور ایک کتاب بھی لکھی جس میں نبی محترمؐ کی رسالت کی گواہی دی اور پھر اس کتاب کو ایک عالم کو دے کرکہا اگر ان کے سامنے بعثت ہو تو یہ کتاب پیش کی جائے ۔ شیخ عبدالحق لکھتے ہیں:
’’ آنحضرتؐجب مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے مکان میں قدم رنجہ فرمایا ۔ یہ ابو ایوب انصاریؓ اسی عالم کی اولاد میں سے ہیںاور اہلِ مدینہ میں سے جن لوگوں نے حضور اکرمؐ کی مدد اوراعانت کی وہ انہی علماء کی اولاد میں سے تھے ۔ کہتے ہیں کہ وہ کتاب حضوراکرمؐ کی تشریف آوری کے زمانے تک حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے پاس موجود تھی اور انہوں نے یہ کتاب حضورؐ کی خدمت میں پیش کی ‘‘۔
حوالہ جات:
(۱) دہلوی، حضرت شیخ عبد الحق محدث، تاریخ مدینہ ،ص6، شبیر بردارز 1998لاہور
(۲) مبارکپوری ، مولانا صفی الرحمن ، الرحیق المختوم، صفحہ35، المکتبہ سلفیہ 1993 ، لاہور
٭ ٭ ٭