پہلی مرتبہ اسے کلاس ہفتم میں پتہ چلا کہ اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت موجود ہے ….. تھوڑی سی کوشش اور بہت زیادہ مطالعہ سے وہ بہت بڑی رائٹر بن سکتی ہے۔
مطالعہ کے نام پر اس نے سکول کی لائبریری سے بچوں کی کتب جاری کروائیں۔پڑوسیوں کے گھر آنے والا بچوں کا اخبار پڑھنا شروع کیا۔اخبار رسالوں سے آگے کی بھی ایک دنیا تھی۔ کوئی سودا سلف سموسے پکوڑے اخبار یا رسالے کے صفحات میں پیک ہو کر آتے تو وہ پڑھے بغیر ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔آہستہ آہستہ سب کو اس کے شوق کا پتہ چل گیا اور عید بری عید پر پیسے دھیلے کے ساتھ کتاب یا رسالہ بھی عیدی میں دے کر سستے چھوٹ جاتے ۔کلاس ہفتم سے پشتم اور اس نے کلاس دہم بھی اچھے نمبروں سے پاس کر لی۔فراغت کے دنوں میں ایسے ہی رسالہ پڑھتے پڑھتے اس کے ذہن میں کہانی کا اچھوتا سا پلاٹ آیا…..تھوڑا سا جھجھک کر اس نے قلم کاغذ سنبھال ہی لیا …..کچھ لکھتی رہی کچھ کاٹتی رہی ۔لکھتے کاٹتے بیس پچیس منٹ گزر گئے۔ ورق پھاڑے کئی بڑے سے کراس سے برباد کیے ۔اس کے بعد بالآخر یکسوئی نصیب ہوئی اور اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ بچوں کی کہانی لکھی۔
کہانی بہت سوچ بچار کے بعد بچوں کے رسالے میں بھیج دی جو پانچ ماہ کے بعد شائع ہوئی ۔اپنا نام چھپا ہؤا دیکھنا …..کسی کو کیا معلوم اس کے لیے کتنا اچھوتا ،انوکھا اور حسین خواب تھا جس کی تعبیر ملی ۔اس نے خاندان کے ہر فرد سے اپنی خوشی میں شمولیت کے لیے کہ کہانی فوٹو کاپی کروا کے بھیجی ۔بک سٹال سے اکٹھے سات آٹھ رسالے خرید کر سکھی سہیلیوں کو تحفے میں دیے۔سہیلیوں کی طرف سے کوئی مبارک باد تو نہ ملی البتہ ٹریٹ کا مطالبہ کر کے ازخود بغیر کسی دعوت کے نو دس سہیلیوں کا جتھا اس کے گھر میں پہنچ گیا ۔خوب پیٹ پوجا کی گئی ۔قہقہے،ہنسی مذاق مگر کم بخت ماریوں میں سے کسی نے پوچھنے پر بھی جواب نہ دیا کہ ان کو کہانی کیسی لگی ۔
بار بار پوچھنے پر ان میں سب سے منہ پھٹ رحماء نے جماہی روکتے ہوئے کہا۔
’’افوہ کہانی پڑھنے یا نہ پڑھنے سے کیا ہوتا ہے بس یہی کافی ہے تم کہانی کار بن گئی ہو اور خوش ہو تو ہم سب تمہاری خوشی میں شریک ہیں۔اللہ اللہ خیر صلا‘‘۔
عابدہ شہزادی کا موڈ تو بہت خراب ہؤا لیکن وہ کیا کر سکتی تھی۔ ہاتھ میں کتاب دی جاسکتی ہے لیکن زبردستی پڑھوایا نہیں جا سکتا ۔ بس کلس کلسا کر چپ ہوگئی اور عجیب سی بات ہے کہ تین خالاؤں،چار ماموؤں کی ستائیس جوان جہان اولادوں کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اتنی محبت اور شوق سے بھیجی گئی کہانی کا مطالعہ فرماتے ۔ہمت افزائی تو بعد کی بات ہے ۔عجیب کور ذوق لوگ ثابت ہوئے؟باقی رہ گئی ددھیال تو وہ تو تھے ہی پینڈو ….. انڈے کو آنڈا اور پراٹھے کو پرونٹھا کہنے والے …..انہیں کہانی بھیج بھی دیتی تو مارے حسد اور جلن کے ان کی نیندیں ہی اڑ جانا تھیں۔اس نے ان سے اس نعمت کا اظہار مناسب ہی نہ سمجھا ۔
رشتہ دار ،سہیلیوں کے علاوہ اس رسالے کے قاری بھی بدذوق نکلے جنہیں مستقبل کی اتنی بڑی مصنفہ کی ہلکی پھلکی سی تحریر سمجھ میں نہیں آئی۔کسی نے اسے نقل شدہ کہااور کوئی منہ پھٹ جاہل یہ پوچھنے بیٹھ گیا کہ آیا یہ کہانی ہی تھی یا کچھ اور۔
عابدہ شہزادی کا دل اتنا برا ہؤا کہ اس نے آئندہ لکھنے کیا پڑھنے سے بھی توبہ کر لی ۔بڑی رائٹر بننے کا خواب کہیں ناآسودہ ہی پڑا رہا۔
دن گزرتے رہے اس نے پرائیویٹ ایف اے کیا۔پھر ایک دو کورسز بھی کر لیے۔صلاحیت والی تو تھی ہی،سلائی کڑھائی میں اس کی مہارت نے سب اپنے پرایوں کو گرویدہ بنا لیا۔کوئی کام عابدہ کے مشورے کے بغیر مکمل نہ ہوتا ۔لوگ باگ اس کے ہنر کو سراہتے داد دیتے اور وہ گلنار چہرہ کے ساتھ اڑی اڑی پھرتی۔اس کی سلائی کڑھائی کی چاروں اور دھوم مچ گئی ۔
انہی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے وہ پیا کو پیاری ہوگئی ۔اس کی سسرال اس کے میکہ کی نسبت مالی طور پر تو خوشحال تھی ہی ،طور طریقے اور رسم و رواج میں بھی آگے تھی۔عابدہ کے میکہ میں کھانا بنانا کپڑے لتے برتن بھانڈے کے بعد عورت فارغ تھی جہاں جی چاہے اور جہاں جی چاہے نہ جائے،مرد بھی من موجی قسم کے تھے۔
البتہ سسرال سر سے پاؤں تک فرق ۔اٹھنے بیٹھنے سے لے کر کھانے پینے تک مردوں کی مشاورت شامل ہوتی۔ایک خاص بات یہ کہ سب چھوٹے بڑے کتابوں کے رسیا تھے۔ بچوں بڑوں سب کے لیے ہفتہ وار ماہانہ رسائل آتے خواتین کے لیے کئی طرح کے رنگ برنگے رسالے میگزین اور ڈائجسٹ بھی آتے اور حیرت کی بات یہ تھی کہ سب ان رسائل و جرائد پر مفصل تبصرہ کرتے۔ پنسل سے خاص جملے اور پیراگراف انڈر لائن کیے جاتے ۔اہمیت اس کی تھی جو مطالعہ سے حاصل شدہ نکات سلجھے طریقہ سے بیان کرتا۔
عابدہ شہزادی کو بہت کم مائیگی سی محسوس ہوتی ۔رسالوں کی رسیا تو وہ بھی تھی ۔لکھنے لکھانے کا شوق اسے بھی تھا مگراب سوچتی کیا بے وقوفی کی کہ سوئی سلائی کو قلم کاغذپر ترجیح دی۔اسے رہ رہ کر افسوس ہوتا۔ماضی کو یاد کر کے پچھتاتی۔ خیر اب بھی وقت تو ہاتھ میں تھا کچھ نہ کچھ کوشش بہرحال کرنا ہی تھی ۔اس لیے کہ سالن سبزی اچھی بنی یا نہ بنے کسی کو پروا نہیں بس اپنے مطالعے کا ذوق اچھا ہونا چاہیے تھا …..یہ تھا عابدہ شہزادی کا سسرال!!
سب سے پہلے اس نے ساس کے نام پر آنے والے درجن بھر رسالوں اور ڈائجسٹوں کا باقاعدگی سے مطالعہ شروع کیا ۔پھر رکتے جھجکتے ان میں شائع ہونے والی تحریروں پر تبصرے بھی کرنے لگی۔ایک تبصرہ ڈائجسٹ میں بھیجا تو تھوڑی سی کاٹ چھانٹ کے بعد شائع بھی ہوگیا۔یہ خوشی اس نے تن تنہا سیلیبریٹ کی۔اس نے اپنے آپ کو ادب کی دنیا کا درخشندہ ستارہ بن کر اپنی روشنی سے سب کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کا پختہ عزم باندھ لیا تھا۔
اس کے فوری بعد اس نے بچوں کی کہانی ’’اکڑ بکڑ بمبے بو ‘‘لکھی یہ محض اتفاق تھا کہ اس نے جب کہانی ایک معروف رسالے میں ای میل کی تو رسالہ پریس میں جانے کے لیے تیار تھا اور یہ بھی محض اتفاق ہی تھا کہ وہ کہانی نئے نویلے مدیر کے من کو اتنی بھائی کہ کہانی ارسال کرنے اور رسالہ مارکیٹ میں آنے تک صرف گیارہ دنوں کا فاصلہ تھا ۔
اب وہ دنیاے ادب میں اپنا تعارف کروا چکی تھی۔ اس نے گھر والوں کو فرداً فرداً رسالہ مطالعہ کے لیے دیا۔ ساس ،جیٹھانی نندوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔مگر اسے ابھی بہت آگے جانا تھا ۔اس نے ایک افسانہ مشہور ڈائجسٹ میں بھیجا ۔وہ بھی اگلے ماہ کی اشاعت میں شامل تھا ۔
یہ اس کی زندگی کا سب سے پر مسرت دن تھا …..ہوائیں رقص کر رہی تھیں باہر آنگن کے درختوں پر پتے جھوم رہے تھے …..درودیوار پر روشنیاں اتر آئی تھیں ….. آنکھوں میں جگنوؤں کے قافلے ٹھہر گئے تھے ….. ستاروں کی لو جھلمل کرتی لہجوں میں در آئی تھی …..گو ڈائجسٹ کے ٹائٹل پر اس کا نام نہیں تھا مگر اندر کے صفحات میں چھپی فہرست میں،اداریے کے نیچے شامل شذرے میں اس کا نام کسی مملکت کی شہزادی کی مانند موجود تھا اور صفحہ نمبر ایک سو تین پر اس کے افسانے کے عنوان کے سامنے بھی اس کا نام پوری تمکنت اور وقار کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔
گو گھر میں ڈائجسٹ آچکا تھا پھر بھی اس نے ملازم کی بجاے خود جاکر ایک نہ دو پورے سات رسالے خریدے ۔
دکاندار نے بھنویں اچکا کر اس سے حیرت کا اظہار کیا تو وہ پرجوش ہو کر بولی
’’بھیا میرا افسانہ شائع ہؤا ہے ناں اس میں…..میں رائٹر
ہوں‘‘یہ فقرہ کہتے ہوئے وہ اپنے آپ کو روئے ارضی کی نہیں کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھ رہی تھی ۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے نہا دھو کر سب سے اچھا قیمتی اور نیا سوٹ پہنا ،ہلکا پھلکا میک اپ کر کے میچنگ جیولری پہنی …..بن سنور کر اس نے باہر لاونج میں رکھے صوفہ پر بیٹھ کر صورت حال کا جائزہ لیا۔ڈائجسٹ صوفہ کے دونوں اطراف میں پڑے سائیڈ ٹیبل پر رکھے …..بلکہ اپنے افسانہ والے صفحات بھی کونے سے موڑ دیے۔ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھی میز پر رکھے لینڈ لائن کا چونگا اٹھایا اور کچھ نمبر ملائے۔دوسری طرف سے رابطہ ہوتے ہی چہکتے ہوئے اپنے رائٹر بننے کی خوشخبری سنائی۔
’’ارے ملیحہ ،تمہیں نہیں معلوم مجھے اللہ نے ادیبوں کی برادری میں شامل ہونے کا اعزاز بخش دیا ہے‘‘۔
’’جی …..جی ،الحمد للہ بچوں کے علاوہ خواتین کے لیے بھی لکھ رہی ہوں‘‘۔
’’بہت شکریہ …..بہت شکریہ‘‘۔
اس کے بعد وقتاً فوقتاً دس بارہ فون کالز میں اپنی کہانی شائع ہونے کی اطلاع بے حد مسرت آمیز لہجہ میں دی گئی ۔کبھی کزنز کبھی سہیلیاں اور کبھی بہن بھائی۔خوب داد و تعریف وصول کرنے کے بعد اس نے لینڈ لائن کی جان چھوڑی اور سسرال کی طرف متوجہ ہوئی۔
اس کے قریب سے گزرتے تقریباً سبھی افراد کو اس کے رائٹر ہونے کا علم ہوچکا تھا۔
جونہی اسے ہوائی رابطوں سے فارغ ہوتے دیکھا تو ساس ایک خوبصورت سی پیکنگ لیے اس کے پاس آئیں۔اس کا ماتھا چوما،پیار کیا، مبارکباد دیتے ہوئے بتانے لگیں۔
’’ کہانی تو رات ہی پڑھ لی تھی بس پرفیوم منگوانے میں دیر ہوگئی …..اور ساتھ میں دو ایک اچھی کتب ہیں لکھنے لکھانے میں تمہاری مدد کریں گی ،ذخیرہ الفاظ مکالمے کی بنت پلاٹ وغیرہ کے بارے میں بھی کچھ کتب دوں گی ان شاءاللہ …..بس ابھی اوپر لائبریری میں نہیں جاسکی ٹانگ میں کھچاؤ سا ہے ذرا‘‘۔
عابدہ دل ہی دل میں ذرا بدبدائی(ہونہہ …..اب ایک رائٹر کو بتائیں گی کیسے لکھتے ہیں ….. خود تو ساری عمر پڑھنے میں ہی گزار دی)۔باقی افراد خانہ نے بھی اس کی خوشی پر خوش ہو کر اس کا ساتھ دیا۔آج آٹا گوندھنے اور برتن دھونے کی ڈیوٹی اس کی تھی۔برتن بھی سنک میں جمع ہوئے اس کا منہ تک رہے تھے اور اس کی جٹھانی کب کی سالن سبزی سلاد بنا کر فارغ ہوچکی تھی لیکن روٹی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔مرد لوگوں کے آنے کا وقت ہو چکا تھا اور وہ’ میں رائٹر ہوں‘ کے نشے میں وقتی طور پر سب بھول گئی تھی۔
اسے نہیں معلوم کس نے برتن دھوے کس نے آٹا گوندھ کر روٹی بنائی ۔ہاں کھانے کی میز پر جب اسے آنے میں دیر ہوئی تو کام والی بچی اسے بلانے آئی ۔سچی بات تو یہ تھی کہ اسے کھانے کی بھوک تھی نہ ہوش ۔ کھانے کا پیغام آیا تو وہ چلی گئی اور دو چار نوالے لے کر ہاتھ کھینچ لیا۔
’’کیوں عابدہ بیٹے آپ کو بھوک نہیں کیا‘‘؟ساس نے پوچھا۔
’’بھوک بھی نہیں ہے۔ اور کچھ اب مصروفیت بھی بڑھ گئی ہے ناں …..صبح سے بیس پچیس تو مبارکباد کے فون آے ،بھانجیاں اور کزنز کی بیٹیوں نے بھی آنے کو کہا ہے ۔انہیں بھی لکھنے کا بہت شوق ہے ناں‘‘اس نے لفظ مبارکباد پر زور دیتے ہوئے کہا۔
کھانے کی میز پر بیٹھے بظاہر کھانے میں مگن لیکن کسی کی مسکراہٹ ہونٹوں کے پھیلاؤ تک تھی ،کسی کی مسکراہٹ نے دانتوں کی بھی جھلک دکھا دی ۔عابدہ کو بہت غصہ آیا ۔سچ ہے اسے کسی کا قول بری طرح سے یاد آیا کہ غم میں آنسو بہانے والے سو نہیں ہزار مل جاتے ہیں لیکن خوشی میں آپ کے ساتھ دل سے شریک ہونے والا ایک آدھ ہی ہوتا ہے۔
وہ نمکین آنسوؤں کو بمشکل روکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔اس کا دل بہت بری طرح سے خراب ہؤا تھا۔ سوچ رہی تھی شاید مجھ سے جلتے ہوں ،نئی نئی سسرال ہے …..کچھ کہہ بھی نہیں سکتی!
اپنے کمرہ تک پہنچ بھی نہ پائی تھی کہ میاں صاحب کی آواز عقب سے سنائی دی ۔
’’کھانا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘
اس نے اس کے جواب میں سکوت ہی مناسب سمجھا ۔
’’ادھر بیٹھو اور میری بات سنو ‘‘میاں صاحب نے قدرے حکمیہ لہجے میں کہا ۔
’’جی …..‘‘وہ رندھی آواز میں بولی ۔
’’آپ کا فون ہے باجی بیگم‘‘ کام والی بچی نے بر وقت مداخلت کی۔
وہ تیزی سے لینڈ لائن کی طرف لپکی ۔فون اس رسالے کی مدیرہ کا تھا جس میں اس کا افسانہ شائع ہوا تھا۔
وہ چند لمحے قبل کی ذہنی کوفت بھلا کر فون سننے میں مگن ہوئی ۔سلام دعا کے بعد مدیرہ نے عجیب سی خبر بریک کی ۔
’’عابدہ شہزادی آپ بالکل نو آموز ہیں ۔ابھی تحریر میں پختگی اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے آپ کو کچھ وقت لگے گا لیکن آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ محترمہ منور سلطانہ راؤ کی بہو ہیں ۔ وہ تو بجھے کوئلے میں بھی چنگاری ڈال دیتی ہیں۔ امید ہے آپ ان کی صحبت میں جلد ہی ساری مہارتیں حاصل کر لیں گی ‘‘۔
’’کک …..کیا؟‘‘وہ کچھ سمجھی نہیں۔ اس کی ساس مقامی کالج میں پروفیسر ہیں یہ اسے شادی سے پہلے معلوم ہو چکا تھا لیکن خوش قسمتی کس بات کی ؟وہ سمجھ نہ سکی۔ مدیرہ نے سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے بتایا ۔
’’ایک دو نہیں ہزاروں قارئین کے دل کی دھڑکن ہیں ان کی تحریریں۔ہم لوگ تو ان سے ہاتھ ملانا بھی باعث فخر سمجھتے ہیں ‘‘۔
’’جی!‘‘وہ پھر سمجھنے نہ سمجھنے کے درمیان لٹک گئی ۔
’’ان کی وسیع خدمات کے اعتراف کے طور پر مختلف قسم کی ادبی تنظیموں نے انہیں اعزازی رکن بنایا ہؤا ہے۔ تاہم وہ اس لحاظ سے بہت بڑے درجے پر فائز ہیں، میں تو ان کی اعلیٰ ظرفی ہی کہوں گی کہ ان کی تحریریں یونیورسٹی لیول تک نصاب میں شامل ہیں لیکن وہ گمنام رہنا پسند کرتی ہیں …..میرا بہت سلام کہیے اور کسی تازہ نظم ،غزل یا افسانے کی فرمائش بھی پہنچا دیں ۔ان کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے وگرنہ خود بات کرنے کو دل چاہ رہا ہے‘‘۔
خدا حافظ کہہ کر انہوں نے گفتگو ختم کردی اور وہ صم بکم بن کر وہیں بیٹھی رہی ۔نیر سلطانہ کا نام پرانی فلموں کے حوالے سے معلوم تھا لیکن منور سلطانہ؟
اسے بہت دیر تک ایسے ہی بیٹھا دیکھ کر ساس وہیں آگئیں۔
’’کس کا فون تھا بیٹے؟‘‘
عابدہ نے معروف شخصیت کا حوالہ ذہن میں رکھ کر پوچھا ۔
’’امی جان ڈائجسٹ کی مدیرہ کا فون تھا آپ کو سلام کہہ رہی تھیں …..اور …..اور …..‘‘اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیسے ساس سے ان کی ہستی کا راز پوچھے ۔
انہیں شاید خود ہی اندازہ ہو گیا’’عابدہ بیٹی کچھ پوچھنا چاہ رہی ہو؟‘‘
’’جی آپ کی کتب بار بار پڑھنے کا مشورہ دیا ہے انہوں نے ….امیں نے بس ایک مرتبہ لکھنے کی کوشش کی تھی۔قارئین نے اس پر فضول اعتراض کیے تو میں نے بد دل ہو کر لکھنا ہی چھوڑ دیا تھا ‘‘جو بھی تھا بہرحال اسے اپنی کمی کا احساس ہو گیا تھا۔ساس زیر لب مسکرائیں ۔
’’اسے میرا آخری ناول بہت پسند ہے جو اس کے ڈائجسٹ میں دو سال مسلسل شائع ہوا‘‘ ۔
’’اوہ ‘‘عابدہ کے ذہن میں کوندا سا لپکا ۔’’تو آپ ثمرین نیلم کمال ہیں ؟اوہ میرے خدایا…..آپ آپ…..آپ…..‘‘
وہ بس کانپ رہی تھی۔ اسے بس اتنا پتہ تھا کہ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر چوم رہی تھی ،رو رہی تھی ۔بلا شبہ وہ نئ اور پرانی نسل کی پسندیدہ رائٹر تھیں ۔ ساس نے اسے گلے لگایا اور دھیرے سے بتایا کہ بڑی بہو ،عابدہ کی جیٹھانی زارا کمال بھی لکھتی ہے زارا حسین کے نام سے اور سسر تو مانے ہوئے منجھےہوئے شاعر اور کالم نویس ہیں۔
عابدہ کو اپنا آپ حقیر اور بونا محسوس ہؤا۔وہ شرمندہ تھی ۔ساس نے پیار کیادلاسہ دیا ،اس کے سارے شکووں کو دھو دیا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔
’’مدیرہ میری دوست ہیں ۔ مداح کا لفظ تو بہت بڑا ہے ،تعریف
صرف ایک رب کی لیکن تمہارے پتے کے ساتھ گھر کا فون نمبر دیکھ کر حیران ہوئیں اور فون کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ عابدہ میری بہو ہے پیاری سی، لکھنے کا شوق بہت ہے اسے، بس اپنے قریب ہی رکھنا‘‘۔پھر انہوں نے قریب رکھا ایک قیمتی قلم عنایت کیا ۔
’’عابدہ بیٹے !مجھے آج اچھا لگ رہا ہے کہ میں نے اپنا مشن دونوں بہوؤں کو سونپ دیا ہے۔تم شکوہ کر رہی ہوکہ میں نے تعارف شروع میں کیوں نہیں دیا۔تو یہ تو فرض ہے عبادتوں کی طرح ….کیا نماز کا اشتہار دیتے ہیں اعلان کرتے ہیں؟یا میں مقامی کالج میں عرصہ ستائیس سال سے پڑھا رہی ہوں تو میں نے ماتھے پر لکھوا لیا ہے کہ میں ایک معلمہ ہوں ؟ ہر شخص اپنی ذمہ داری اپنے پیشے کا خود تعارف ہوتا ہے ۔لیکن اچھا یا برا….. وہ تعارف اس کی قبر تک ساتھ جاتا ہے۔ میرے ابا مرحوم اہل قلم میں سے تھے۔بہت اچھا اسلوب لیکن مختلف ناموں سے لکھا ۔جو بھی لکھا قلم کی حرمت کے لیے لکھا ۔میں بھی ابا کے اس خیال اور خواہش کی تکمیل میں مصروف ہوں کہ ہم تو دیہاڑی دار مزدور ہیں ،کوئی زبان کے ذریعہ درس و تدریس سے ،کوئی قلم کےذریعے ،کوئی مال کے ذریعے، کوئی جان دے کر….. کرنے والے کرتے رہیں گے۔مزدوری تو وہی دے گا جس نے قلم تخلیق کیا اور ہم لوگوں کے ہاتھ میں تھمایا…..اسے امانت سمجھا اور حق ادا کرتا رہا ‘‘۔
وہ دم بھر کو رکیں ۔ پھر گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’مجھے امید ہے تم دونوں بھی میرے اس ابی مشن اور ربی مشن میں میرا ساتھ دو گی …..تاکہ ہمارا ساتھ ان لکھے لفظوں کی وجہ سے دنیا میں ہی نہ ہو بلکہ کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی میں بھی….. وہاں بھی اہل قلم کا قبیلہ تو ہوگا ناں جو چپ چاپ کسی نام و نمود کی پروا کے بغیر اپنے آپ کو اس جہاد میں مصروف رکھتے تھے۔قلم ان کے پاس خدا کی امانت اور اس کا مثبت استعمال اللہ کی طرف سے سعادت سمجھتے تھے۔ صلہ یا ستائش کی تمنا سے بے نیاز!! ‘‘
انہوں نے پانی کا گھونٹ پینے کے لیے گلاس منہ سے لگایا اور عابدہ شہزادی دم سادھےاس خاتون کو تک رہی تھی ،سن رہی تھی جس کے بارے میں اگر لوگ کہتے ہیں ہاتھ ملانے کی حسرت ہے تو کیوں کہتے ہیں …..قلم کی حرمت کا پاس رکھنے کی وجہ سے !
٭ ٭ ٭