’’ میرے پیچھے مت لگو۔ میں نے تم سے کہہ دیا کہ میں مارکیٹ نہیں جائوں گا۔ میرے خاندان کے ایک بزرگ وفات پا گئے اور تم کو خریداری کی سوجھ رہی ہے ۔ مجھے اگر کسی نے بازار میں تمہارے ساتھ خریداری کرتے دیکھ لیا تو لوگ باتیں بنائیں گے کہ دانیال کو رفیع پھوپھا کی موت کا صدمہ نہیں ‘‘۔
وہ رابعہ پر بگڑ رہا تھا ۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ رابعہ کی اکلوتی بیوہ بہن کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی اور اسے اپنی بھانجی کے لیے کوئی تحفہ لینا تھا ۔ اس کی بہن شادی کے کچھ دن بعد ہی بیوہ ہو گئی تھیں ۔ انہوں نے بڑی محنت مشقت اور تنگدستی سے زندگی گزاری تھی ۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی پرورش انہوں نے ٹیوشن پڑھا کر اور محلے والوں کے کپڑے سی کر کی تھی ۔ رابعہ کو اپنی بہن سے بہت زیادہ محبت تھی ۔یوں تو وہ بھانجی کے لیے تحفہ اپنے کسی بچے کے ساتھ بھی جا کر خرید سکتی تھی لیکن وہ چاہتی تھی کہ دانیال نے جو اپنے اوپر خود ساختہ سوگ طاری کر رکھا ہے وہ کسی طرح کم ہو جائے ۔
رفیع پھوپھا سے دانیال کی کوئی قریبی رشتہ داری بھی نہ تھی ۔وہ دانیال کی خالہ کے دیور کے سسر تھے مگر یہ اس کا مزاج تھا کہ خاندان میں دور پرے کسی کی موت بھی دانیال کوخود ساختہ سوگ میں مبتلا کردیتی تھی۔ خواہ مرنے والے کے کسی لواحقین نے دانیا کو اطلاع دینے کے قابل بھی سمجھا ہو یا نہ ہو مگر وہ اس سوگ کو اپنی جان سے لگا لیتا ۔ پھر رابعہ کا جینا حرام ہو جاتا ۔ خود سوگ طاری کرکے وہ اس بات کامنتظر رہتا کہ دوسرے بھی سب کام چھوڑ کر اس کے غم میں شریک ہو جائیں اورخصوصاً رابعہ کے گھر والوں سے تو اس کو بہت سی توقعات وابستہ ہوجاتیں ۔ ہر روز اسے پُرسہ دینے والوں کا انتظار ہوتااور اگر کوئی دن خالی گزر جاتا تو طعنوں کے تیروں سے وہ رابعہ کا دل و جگر چھلنی کر دیتا ۔
’’ دیکھا تمہارے کسی رشتہ دار کو توفیق نہیں ہوئی کہ میرے مرنے والے عزیز کا پرسہ دینے میرے غم میںشریک ہونے آتے ۔ بس اب تمہارا بھی اس گھر میں آنا جانا بند ۔ تمہیں ضرورت نہیں ہے ان کی کسی بھی خوشی اور غم میں شریک ہونے کی ‘‘۔
وہ دل ہی دل میں کڑھ کر رہ جاتی ۔ کبھی سوچتی کیا محبت اور خلوص بھیک ہے جو مانگ کر لی جائے ۔ یہ طنطنہ ، نخوت، کدورت یہ تو محبت کو فنا کر دینے والے ہتھیار ہیں ۔ ان سے تو رشتے فناہی ہوتے ہیں ۔ اس کے میکے میں کون سے ہزاروں رشتہ دار تھے ۔ صرف ماں ، ایک بیوہ بہن ، ایک چھوٹا بھائی۔ دانیال کی باتیں سن کر وہ خاموشی سے دوسرے کمرے میں چلی جاتی ۔
رابعہ کے تینوں قریبی عزیز دانیال کا مزاج سمجھتے تھے ۔ اس لیے وہ اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر اس کے غم کو بانٹنے چلے آتے ۔رابعہ کا بس یہی کام تھا کہ جب بھی دانیال کے خاندان کا کوئی فرد فوت ہوتا ، رابعہ فوری طور پر اپنے خاندان کے افراد کو اس کی اطلاع دیتی ۔ پھر خاندان والوںکا کام تھا کہ وہ کب اپنی مصروفیات کو بھول کردانیا ل کا غم بٹانے آتے ہیں۔ اوراگر وہ اس خود ساختہ غم کو اہم نہ سمجھ کر نظر اندا ز کردیتے تو رابعہ کا زندگی بھر ان سے ناتا قائم رہنا مشکل تھا ۔ رابعہ کی کتنی خالہ زاد ماموں زاد بہنیں اس سے دور ہو گئی تھیں کیونکہ دانیال نے ان سے ملنے اور ان کے گھر جانے پر پابندی لگا دی تھی ۔
کبھی کبھار دانیال کا موڈ خوشگوار ہوتا تو رابعہ اسے پیار محبت اور نرمی سے سمجھانے کی کوشش کرتی کہ کراچی جیسے ہنگامہ پرور شہر میں جہاں ایک محلہ سے دوسرے محلے میں جانا مشکل ہے ، میلوں دور جانا اور ہر وقت
ہر لمحہ خوشی غم میں شریک ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ فاصلوں اور ٹریفک کے شورو غل نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔ ایک ہی شہر میں کیماڑی سے گلشن معمار پہنچنا ایسا ہی مشکل ہے جیسے کراچی سے دوبئی یا قطر۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر وقت ٹریفک کے مسائل اور ہجوم کے ساتھ سفر کرنا ایک تھکادینے والا مرحلہ ہے ۔ نوکر پیشہ افراد کے لیے تو یہ اور بھی مشکل ہے کہ دفاتر سے نوکری بھگتا کر گھر پہنچیں اور پھر وہاں سے لوگوں کی اموات ، نیاز فاتحہ میںشریک ہوں ۔ اب لوگوں کو اتنی فرصت نہیں ہے اس لیے لوگوں کی مصروفیات کے پیش نظر ان کو معاف کرنا سیکھیں اگر خود ہو سکے تو دوسروں کے ساتھ خوشی اور غم شیئر کرلیں مگر ہر ایک سے توقع نہ کریں کہ وہ بھی آپ کی طرح ہو گا ۔ احسان کرنا سیکھیں احسان کا بوجھ نہ اٹھائیں۔ شکر کرنا سیکھیں نا شکری سے بچیں ۔ کسی سے بدلہ نہ لیں نہ اپنے خلوص اورمحبت کا احسان جتائیں ۔ وہ بہت نرمی سے پیا ر سے خلوص سے دانیال کو سمجھانے کی کوشش کرتی مگر دانیا ل کینہ کپٹ رکھنے والا دل رکھتا تھا ایک دفعہ دل کسی کے بغض سے بھر لیتا تو صفائی مشکل ہو جاتی اور ان سب عذابوں سے گزرنا رابعہ کا مقدر تھا۔
کراچی میں ان دنوں جولائی میں شدید بارشیں ہوئیں ۔ سیلابی کیفیت نے پوری شہری زندگی تلپٹ کردی ۔ آگرہ تاج کالونی میں دانیال کی خالہ کے دیور کے سسر رفیع الدین کا انتقال ہؤا۔ ان کی عمر تقریباً چورانوے سال تھی ۔ پوتا پوتیوں کی اولادوں کی بھی شادیاں کر چکے تھے ۔ کسی دور پرے کے عزیز نے دانیا ل کو ٹیلیفون پر اطلاع دی ۔ دانیا ل خود تو کسی نہ کسی طرح اپنے ان عزیز کی میت میں شریک ہو گیا مگر گھر کے باقی افراد طوفانی بارش کی وجہ سے تدفین میں نہ جا سکے ۔ خود رابعہ بھی بڑی مشکل سے پانچ سو روپے دے کرٹیکسی میں دانیا ل کے ساتھ موت کے گھر پہنچی۔ بارش ایسی دھواں دھار تھی کہ ہر طرف سیلابی ریلے نظرآنے لگے تھے ۔ ہر چیز جل تھل ہو گئی ۔
بارش کا یہ سلسلہ تقریباً پندرہ دن جاری رہا ۔ لوگوں کے مکانوں کی چھتیں اڑ گئیں ۔ سامان بہہ گیا ۔ پندرہ دن کی مسلسل تباہی نے زندگی کو مفلوج بنا دیا ۔ حکومت نے اربوں روپوں کے نقصانات کے تخمینے کا اعلان کیا ۔ رابعہ نے بھی موت کے گھر سے آکر سب سے پہلے اپنے قریبی عزیزوں کو اس موت کی اطلاع دی ۔ لیکن اس وقت پورا شہر سیلابی کیفیت میں تھا ۔ ڈیفنس میں ایک ہفتے تک مکانوں سے پانی کا اخراج نہ ہو سکا ۔ انڈر پاس میں نکاسی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے رُکے ہوئے پانی کی وجہ سے سڑاند پیدا ہو گئی۔ مگر شہری حکومت اپنی بہترین کار کردگی کا ہر روز ڈھنڈورا پیٹتی رہی ۔ پورا شہر بارش کی تباہ کاریوں کی زد میں تھا ۔ بجلی کے تار ٹوٹنے ، کرنٹ لگنے سے بے شمار اموات ہوئیں ۔ جو زندہ تھے وہ اپنے مال اپنے گھر اوراولاد کی فکر میں لگے ہوئے تھے ۔
دانیال نے پندرہ دن تک روزانہ ہر سسرالی عزیز رشتہ دار کے آنے کا انتظار کیا کیونکہ اس کا سارا زور رابعہ اور اس کے گھر والوں پر ہی چلتا تھا۔ پندرہ دن کے جان لیوا انتظار کے بعد اس نے حسبِ سابق حکم نافذ کر دیا کہ اب رابعہ ان گھروں میں قدم نہیں رکھے گی جن گھروں کے لوگوں نے اس کے شوہر کے غم کو اپنا غم نہیں سمجھا ۔ رابعہ ایک شوہر پرست وفا شعار بیوی تھی ۔ اس کے دل میں کتنے ہی زخم ہوں ، کرچیاں کتنی ہی گہرائی میں پہنچ کر اسے اذیت دیتی رہیں ، وہ زبان بند ہی رکھتی تھی ۔ وہ ساری عمر اس غصہ ور ، کینہ پرور انسان کی ہر بات بنا کچھ کہے جاننے کا ہنر سیکھ گئی تھی اور کیوں نہ سیکھتی یہ اس کی بیوہ ماں کی تربیت تھی جس نے خود بیوگی کے چالیس سال سسرال کے ساتھ زبان بند کر کے گزارے تھے ۔ اس نے رابعہ کو نصیحت کی تھی کہ کبھی شوہر کے غصے کے وقت اس سے زبان چلانے کی کوشش نہ کرنا ۔ اپنی بات کی اہمیت اگر رکھنی ہے تو ایسے وقت میں جتانا جب شوہر خوشگوار موڈ میں کچھ دینے کے موڈ میں اور کچھ سننے کے موڈ میں ہو ۔ ورنہ اپنی بات کھونے کا غم اور اپنی وقعت کم ہونے کا احساس عورت کو اپنی ہی نظروں سے گرا دیتا ہے ۔
دانیال تو پورے خاندان میں انتہائی خوش مزاج ، ملنسار ، دوست نواز مشہور تھا ۔ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اس کی ہنسی کی آواز رابعہ کو حیران کر دیتی تھی مگر یہی دانیا ل جب گھر میں بیوی بچوں میں آکر بیٹھتا تو سوائے سخت کلامی ، طعنہ زنی اور کٹھور لہجے کے کچھ نہ دیتا ۔ غیروں کے لیے محبت اورخلوص کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا وہ شخص ۔ بعض لوگ ایسی ہی
دانیال تو پورے خاندان میں انتہائی خوش مزاج ، ملنسار ، دوست نواز مشہور تھا ۔ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اس کی ہنسی کی آواز رابعہ کو حیران کر دیتی تھی مگر یہی دانیا ل جب گھر میں بیوی بچوں میں آکر بیٹھتا تو سوائے سخت کلامی ، طعنہ زنی اور کٹھور لہجے کے کچھ نہ دیتا ۔ غیروں کے لیے محبت اورخلوص کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا وہ شخص ۔ بعض لوگ ایسی ہی منافقانہ طبیعت رکھتے ہیں گھر میں کچھ اور باہر کچھ اور ۔
رابعہ اور بچوں کو دانیا ل کے اس طرز معاشرت کی عادت ہو گئی تھی۔ وہ خاموشی سے ہر روز ایک نئی امید کا آسرا کرتی ۔ انسان میں جوں جوں نیکی کی صلاحیت بڑھتی ہے، شراتنی ہی طاقت سے اس پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ وہ بہت صبر و تحمل سے اس خاص لمحے کا انتظار کررہی تھی جب دانیال مجسم اس کے خیالات سے متفق ہو جائے ۔ رابعہ کا عقیدہ تھا کہ اگر اپنے قول و فعل سے کسی کو نفع نہیں پہنچا سکتے تو اس کو نقصان بھی نہ پہنچائو ۔ اگر کسی کو خوشی نہیں دے سکتے تو غم بھی نہ دو ۔ اگر کسی کے اچھے عمل پرسراہنے میں کنجوسی اور بخل کرتے ہو تو کم از کم برائی کرنے میں اسراف نہ کرو ۔ نیکی کے بدلے نیکی کرنا تو نیکی کا حق ادا کرنا ہے ۔ اصل نیکی یہ ہے جو برائی کے جواب میں کی جائے ۔ وہ اکثر یہ باتیں اپنے بچوں کی تربیت کا حصہ بنائے رکھتی ۔ ہمیشہ اپنے بچوں کودوسروں کی غیبت کرنے ، ان کی کمزوریاں دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے منع کرتی ۔ وہ اپنے آپ کو بھی ہمیشہ ایسے لوگوں سے دور رکھتی جو اس کے منہ پر اس کی تعریف کرتے۔
دانیال کے رفیع پھوپھا کا چالیسواں قریب تھا ۔ ان چالیس دنوں میں دانیال نے اپنے اوپر ہر قسم کی تفریح حرام کرلی تھی ۔ بچوں کو ٹی وی کھولنے اور دیکھنے کی اجازت نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ رابعہ کی اکلوتی بھانجی کی شادی میں نہ تو خود شریک ہؤا اور نہ رابعہ کو شادی میں شرکت کی اجازت دی۔کیونکہ کلثوم باجی بیٹی کی شادی کی تیاری کی وجہ سے دانیال کے رفیع پھوپھا کے پُرسے کے لیے گھر نہیں آ سکی تھیں ۔ صرف ٹیلیفون پر افسوس کا اظہار کر دیا تھا ۔ اس کے بدلے میں رابعہ کو بھی صرف اتنی اجازت ملی تھی کہ وہ ٹیلیفون پر بہن کو بیٹی کی شادی کی مبارکباد دے دے ۔
دانیا ل کے اس حکم نے رابعہ کو بڑا دکھ دیا تھا ۔ شوہر کی فرمانبرداری اللہ کا حکم ہے مگر شوہر نے اپنا جائز حق بڑی سفاکی اور بے رحمی سے استعمال کیا ۔ بیوہ بہن کی مجبوری نے اس کے چاروں طرف دکھ کے الائو سلگا دیے تھے ۔کنپٹیوں کے درد نے اسے ادھ موا کر دیا ۔ مگر دانیا ل نے اسے حکم دیا شوہر کا رشتہ عزت نفس کی پاسداری ہی تو ہے۔ اس نے اپنی آنکھوں کو خاموشی سے رگڑ کر خشک کر لیا ۔ اس نے لفظوں کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ تو سب کمتر اور بے وقعت چیز ہیں ۔ مگر ان کی کاٹ تلوار سے زیادہ تیز ہوتی ہے ۔
دانیال کئی دن سے رابعہ کو اس کی مصروفیات میں سے وقت نکال کر رفیع پھوپھا کے ہاں لے جانا چاہ رہا تھا ۔ رابعہ نے بھی ان کے چالیسویں سے پہلے ایک چکر ان کے گھر کا لگانے کا پروگرام بنایا ۔ کورنگی ڈھائی نمبر میں شہر کے ہنگامہ خیز ٹریفک کو عبور کر کے جب ان کے گھر پہنچے تو انہیں اپنے چہرے پرحد سے زیادہ تھکن اور افسردگی محسوس ہوئی ۔
گھر کے قریب انہیں غیر معمولی چہل پہل اور رونق کا احساس ہؤا۔ ان دونوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید رفیع پھوپھا کے چالیسویں کی تقریب آج ہی ہے مگر یہ رونق ، یہ مسکراتے کھلکھلاتے چہرے موت کی افسردگی کا نعم البدل نہیں تھے ۔ رابعہ تو سادہ کاٹن کا سوٹ پہنے ہوئے تھی۔ موت کے افسوس کے لیے آرائش زیبائش زیب نہیں دیتی۔ دانیا ل بھی سفید ململ کا کرتا پاجامہ اور سفید ٹوپی سر پرجمائے ہوئے گھر میں داخل ہؤا۔ گھر میں گھستے ہی انہیں احساس ہؤا کہ و ہ کسی شادی کی تقریب میں آئے ہیں ۔ دانیا ل کی خالہ کی دیورانی گہرے عنابی رنگ کے ریشمی سوٹ میں رابعہ سے آکر گلے ملیں ۔ ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔ باپ کی موت کا دور دور تک کوئی اثر نظر نہیں آ رہا تھا ۔ رابعہ کو لپٹاتے ہوئے بولیں۔
’’ رابعہ باجی! آپ نے بہت اچھا کیا جو آگئیں ۔ آج آصفہ کی مہندی ہے ۔ اس کے سسرال والے تاریخ بڑھانے پر راضی نہیں ہوئے کیونکہ لڑکا امریکہ سے بارہ دن کے لیے آیا ہے ۔ اس لیے بچیوں کی ضد پر ہم نے گھر میں ہی مہندی کی تقریب رکھ لی ہے تاکہ آصف کو مایوں بٹھا کر رسم ادا کردی جائے ۔ دو دن بعد ابا کا چالیسواں ہے اسی میں سب کو شادی کے کارڈ دے دیے جائیں گے ۔ اگلے ہفتہ آصفہ کی رخصتی سبزہ زار لان میں ہے ۔ آپ تو اپنا کارڈ لے جائیں ‘‘۔
وہ پھولی پھولی سانسوں میں رابعہ کو گلے لگے ساری اطلاعات دے رہی تھی ۔ موت کے گھرمیں رابعہ کو ڈھولک کی ہلکی ہلکی تھاپ جو دوسرے کمرے سے آ رہی تھی ، عجیب سی لگی ۔ یہ رابعہ کے لیے بڑا دشوار لمحہ تھا اور شاید وہی ایک لمحہ جس کا اسے شدت سے انتظار تھا ۔اس مرحلے کا حل فرار یا پسپائی میں پوشیدہ نہیں ۔ اس نے کندھے لگے لگے خالہ کی دیورانی کو خلوص دل سے مبارکباد دی ۔ دوسروں کوکسی کمزور لمحے میں شرمندہ کرنا اس نے سیکھا ہی نہ تھا ۔ صرف زخمی نظروں سے دانیال کو دیکھا۔ اس لمحے اس کو اپنی بیوہ بہن کی بیٹی کی شادی یاد آگئی جس میں دانیال نے اسے شریک نہیں ہونے دیا تھا۔ اپنے گھر کا وہ سوگوار ماحول نظروں میں پھر گیا جودانیال نے رفیع پھوپھا کے غم میں طاری کر رکھا تھا ۔ وہ کسی کو زور سے ہنسنے کی اجازت بھی نہیں دیتا تھا ۔ یہاں جو مرحوم کا اپنا ذاتی گھر تھا اس میں ہر طرف خوشیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔ ہر چہرے سے خوشیاں پھوٹ رہی تھیں ۔ غم و صدمہ انہیں چھو کر نہیں گیا تھا ۔ آج اس کے دل میں بڑا ملال تھا کہ دانیال نے اپنے خود ساختہ غلط اور مکروہ اصولوں کی وجہ سے رابعہ اور اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم کر دیا تھا ۔ خاندان کے افراد سے اسے دور کر دیا تھا ۔ بنا خطا کے اسے یہ سزا دی تھی ۔ اسے آج دانیال سے شکایت تھی اور یہ شکایت برسوں کا جمع شدہ لاوا بن کر ابلنے والا تھا مگر اس سے پہلے اس نے شا کی نظروں سے دانیال کو دیکھا جو اس سے نظریں چرانے کی کوشش میں ناکام ہو رہا تھا جیسے یہاں سے بھاگ جانے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہو۔
دوسرے کمرے سے آ رہی تھی ، عجیب سی لگی ۔ یہ رابعہ کے لیے بڑا دشوار لمحہ تھا اور شاید وہی ایک لمحہ جس کا اسے شدت سے انتظار تھا ۔اس مرحلے کا حل فرار یا پسپائی میں پوشیدہ نہیں ۔ اس نے کندھے لگے لگے خالہ کی دیورانی کو خلوص دل سے مبارکباد دی ۔ دوسروں کوکسی کمزور لمحے میں شرمندہ کرنا اس نے سیکھا ہی نہ تھا ۔ صرف زخمی نظروں سے دانیال کو دیکھا۔ اس لمحے اس کو اپنی بیوہ بہن کی بیٹی کی شادی یاد آگئی جس میں دانیال نے اسے شریک نہیں ہونے دیا تھا۔ اپنے گھر کا وہ سوگوار ماحول نظروں میں پھر گیا جودانیال نے رفیع پھوپھا کے غم میں طاری کر رکھا تھا ۔ وہ کسی کو زور سے ہنسنے کی اجازت بھی نہیں دیتا تھا ۔ یہاں جو مرحوم کا اپنا ذاتی گھر تھا اس میں ہر طرف خوشیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔ ہر چہرے سے خوشیاں پھوٹ رہی تھیں ۔ غم و صدمہ انہیں چھو کر نہیں گیا تھا ۔ آج اس کے دل میں بڑا ملال تھا کہ دانیال نے اپنے خود ساختہ غلط اور مکروہ اصولوں کی وجہ سے رابعہ اور اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم کر دیا تھا ۔ خاندان کے افراد سے اسے دور کر دیا تھا ۔ بنا خطا کے اسے یہ سزا دی تھی ۔ اسے آج دانیال سے شکایت تھی اور یہ شکایت برسوں کا جمع شدہ لاوا بن کر ابلنے والا تھا مگر اس سے پہلے اس نے شا کی نظروں سے دانیال کو دیکھا جو اس سے نظریں چرانے کی کوشش میں ناکام ہو رہا تھا جیسے یہاں سے بھاگ جانے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہو۔
رابعہ کا اس کاساتھ برسوں کا تھا ۔ اس لمحہ بھی اس نے شوہر کو شرمندگی سے بچا لیا اور بڑی نرمی اور آہستگی سے بھیگے لہجے میں بولی۔
’’ چلیے دانیال ہم لوگ بھی اب چلیں ۔ ہمیں ابھی کلثوم باجی کے ہاں ان کی بیٹی کی شادی کا تحفہ لے کر مبارکباد دینے جاناہے ۔ یہاں توہم ویسے بھی بن بلائے مہمان ہی ہیں ۔ انشاء اللہ اگلے ہفتے پوری تیاری کے ساتھ شریک ہوں گے ‘‘۔
دانیال نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔ رابعہ کی نظروں میں کیا کچھ نہ تھا جو اسے زخمی کرنے کے لیے کافی تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر آہستہ سے رابعہ کا ہاتھ تھاما اور تیزی سے باہرنکل گیا۔
٭…٭…٭