This Content Is Only For Subscribers
بے نور آنکھوں کا نور بھرا چہرا میری ہتھیلیوں میں ہے اور ان کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے میرے آنسو ٹپ ٹپ ان لبوں پر گرے ہیں جو آج سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ کا ورد نہیں کر رہے۔
میری نازک سی امی جان….. دھان پان سی امی جان…..ایک لحظہ میں ماضی کے کتنے ہی ورق پلٹ گئے۔
پہلی یاد بچپن کی تھی جب پشاور میں گھر کی چھت پہ گرمیوں میں چارپائیوں کی ایک قطار لگی ہوتی اور بھیگی چھت پر پیڈسٹل فین باری باری ہوا دیتا ۔ اس ایک جھونکے کے انتظار ہی میں آنکھ لگ جاتی۔ صبح دم چڑیوں کی چہکار سے پہلے میری آنکھ ہمیشہ امی جی کے ہلانے سے کھلتی۔ ان کی عادت تھی کہ فجر کی نماز کے لیے اٹھتیں تو میری چارپائی کے قریب سے گزرتے ہوئے میرا پاؤں کا انگوٹھا ہلا دیتیں اور میری فجر بھی ادا ہو جاتی۔
سردیوں میں ان کا معمول تھا کہ صبح فجر پڑھ کر سویٹر، جرابیں اور گرم شال پہن کر باورچی خانے جاتیں ، وہاں چولہے پہ نمکین چائے کا رس پک رہا ہوتا اور امی سیڑھی پر بیٹھی اپنا سبز غلاف والا قرآن دھیمے دھیمے لحن کے ساتھ پڑھ رہی ہوتیں۔ اسی دوران ہمیں سکول جاتے دودھ کا گلاس بھی مل جاتا اور چھلے بھیگے بادام بھی۔
ذرا بڑے ہوئے تو ابا جی نے بڑے احترام سے بتایا کہ تمھاری امی نے حضور پاک ﷺ کی زیارت کی تھی جب مجھ سے بڑا بھائی پیدا ہؤا تھا۔ اس میں انہوں نے نبیؐ پاک کو وضو کروایا۔ امی جی ہمیشہ بڑے احترام، عقیدت اور محبت سے خود بھی یہ واقعہ سناتیں اور ہم آنکھوں سے ایک ٹک انہیں دیکھتے ، اسی محبت کو اپنے دل میں محسوس کرتے۔ پھر وہ کہتیں! اللہ بخشے میری خالہ بڑی نیک خاتون تھیں۔ انہوں نے مجھے کہا بانو! تیری نمازوں میں کچھ فرق ہے جو اَب حضورؐ تجھے خواب میں آئے ہیں، بس تو ان کا اہتمام کر…
اب سوچتی ہوں! کیسی پاک خاتون تھیں کہ یہ عہد انہوں نے پھر زندگی بھر نبھایا۔ ایک ایک کر کے ہم چاروں بہنیں بیاہی گئیں۔ دونوں بھابیاں بھی گھر آگئیں اور آہستہ آہستہ امی جی کی نظر کمزور ہونے لگی۔ بڑا گھبراتی تھیں۔ دونوں آنکھوں کے آپریشن بھی ہوئے۔ چند سال نظر بہتر رہی مگر آنکھ کا پردہ ہی کمزور پڑتا گیا تو ایک عجب اللہ نے کرم کیا۔ امی جی نے بہت سی قرآن کی سورتیں زبانی یاد کر لیں۔ اب جب بڑے حروف والا قرآن بھی نہ پڑھا جاتا تو کبھی کبھار روتیں کہ اب کیا ہو گا اور مجھے اپنے ابا جی کا لاچار چہرہ یاد آجاتا جب وہ لمبے لحیم شحیم ابا جی بے چارگی سے کہتے :
’’پتر تیری ماں یوں روتی ہے تو میرے کلیجے پہ ہاتھ پڑتا ہے، تم سارے پیسے لے لو اور اس کا علاج کروا دو‘‘۔
مگر علاج پیسوں سے تھوڑا ہی ہوتے ہیں! اللہ تبارک کی رحمت کے اپنے ہی انداز ہیں۔ میں نے سمجھایا امی جی! اللہ جی کہتے ہیں میں جس کی وہ قیمتی چیزیں لے لیتا ہوں تو اس کے صبر کے بدلے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ بس پھر امی جی نے صبر کر لیا اور میں نے اللہ کی رحمت کا ایک اور انداز دیکھا کہ وہ میرا کھلنڈرا بھائی، شرارتی بھائی ،ہر معاملے کو گپ شپ میں اڑانے والا پیارا بھائی یوں امی ابو کے لیے ان کی ساری دنیا ہی ہو گیا۔ صبح صبح فجر پہ امی جی اور تجمل اپنے حفظ شدہ قرآن کی دہرائی کرتے۔ پھر بڑے ہی پیارے لہجے میںتجمل دونوں کے ساتھ کلمہ پڑھتا اور پھر سب سوجاتے۔ وہ ہمیشہ صبح اذان دینے مسجد جاتا تو ان سے اجازت لے کر جاتا کہ میںاذان دے کر اور نماز پڑھ آؤں، پھر ہم اکٹھے قرآن پڑھیں گے۔
آہستہ آہستہ امی جی کے قویٰ مزید کمزور ہوتے گئے۔ میری خوش بختی کہ ستمبر میں امی جی میرے ساتھ اسلام آباد آنے پر راضی ہو گئیں۔ بڑی باجی سے انہیں بڑی محبت تھی۔ ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے
آنے پہ راضی ہو گئیں۔مگرمیرے شوہر کامجھ سے اصرار تھا کہ’’ آپ ڈاکٹر ہیں، ان کو آپ کی خدمت کی زیادہ ضرورت ہے، خالی ہاتھ مت آئیے گا، امی کو لے کر آئیے گا‘‘۔ بس الحمدللہ وہ راضی ہوئیں۔ پوتے پوتیوں کی آوازیں تھیں ’’پھپھو چند روز بس پھر ہم اپنی دادو کو واپس لے آئیں گے‘‘۔
ہم سب خوش، ہمارا گھر آباد ہو گیا۔ امی جی نماز اونچی آواز میں پڑھتی تھیں۔ اب چونکہ دیکھ بھی نہ سکتی تھیں اور اونچا بھی سنتی تھیں تو کسی نہ کسی کو ساتھ بٹھاتی تھیں۔ اہتمام سے وضو کر کے آنا، بیٹھ کر جائے نمازکو سیدھا بچھانا، ایک طرف اپنا چھوٹا سا بٹوا اور ایک طرف تسبیح رکھنااور اونچی آواز میں نماز ادا کرنا۔ چند ہی دنوں بعد ان کی آنتوں کے کینسر کا پتہ چلا۔ نوے سال عمر اور کمزور جسامت کی وجہ سے نہ کیموتھراپی ، نہ ریڈیو تھراپی ہو سکتی تھی۔ میری بہت پیاری سرجن کولیگ نے کہا جب تک بغیر تکلیف کے ہیں خالہ جان کو اسی طرح دیکھتے رہیں،اگر کوئی بندش ہوئی تو دیکھ لیں گے۔ بس وہ رحمان ہے، رحیم ہے، میری ماں اسی طرح وضو کرتیں، نمازیں پہلے بیٹھ کر اور پھر لیٹ کر پڑھنے لگیں۔ پھر آہستہ آہستہ صرف آیاتِ قرآنی کا ورد رہ گیا اور اکثر جن آیات کا ذکر کرتیں وہ ’’سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ‘‘ (یٰسین 58)، ’’ اِنَّ ہٰذَا لَھُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ‘‘ (الواقعہ 95)۔ سورۃ واقعہ پڑھنا بہت پسند تھی۔ ہمیشہ جنت الفردوس مانگتیں۔
ماں جی نے ساری عمر کبھی ابا جی کا نام نہ لیا تھا مگر ان کے جانے پہ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ہم نے ابا جی کے سرہانے ہاتھ پکڑ کر انہیں کرسی پہ بٹھایا تو اپنی بے نور آنکھوں سے آنسو برساتے ہوئے میری ماں نے ابا جی کے حق میں گواہیاں فرشتوں کو لکھوائیں کہ انہوں نے ہمیشہ مجھے اور میرے بچوں کو خوش رکھا۔ یا اللہ! یہ نیک، شریف آدمی آپ کے حضور حاضر ہے، آپ اس کی مغفرت فرمائیے۔ ہچکیوں میں گواہیاں دیتی میری ماں جی کا چہرہ یادوں میں نقش ہے۔ اور پھر اتنی لمبی دعا کرتیں ۔ اس میں ایک ایک کا نام لے کر ، اپنے میکے، سسرال، بچوں کے سسرال میں وفات پانے والوں کی مغفرت کی دعا کرتیں۔ پھر اسی ترتیب سے زندہ رہنے والوں کے ناموں کے ساتھ ایمان اور اچھے نصیب کی دعا کرتیں۔ میرے والد کا نام عبدالرشید اور ماموں کا نام سعید تھا جو ان کے سب سے چھوٹے لاڈلے بھائی تھے۔ ان کی وفات کے بعد بڑی محبت سے دعا مانگتیں: اللہ جی! میرے سعید (اونچا سا) اور میرے رشید (ہلکی حیا والی آواز میں) کو جنت الفردوس میں علیین میں اونچا مقام دیجیے۔
ایسے ہی میری امی ہسپتال رمضان 2021ء کی اکیسویں رات داخل ہوئیں۔ سیریس ہو جاتیںتو سب جماعت کی بہنیں، پیما کی بہنیں دعائیں کرتیں اورپھر ہم ڈسچارج ہو کر گھر آگئے۔ مگر عید کے روز پھر جانا پڑا۔ میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ امی کو پیمپرزکی ضرورت پڑ جانی ہے مگر میری ماں تو انتہائی پاکیزگی کا ، طہارت کا خیال رکھنے والی ہیں، یا اللہ یہ کیسے ہو گا۔ پھر سمجھ آئی ’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ‘‘ (النحل 97)
اللہ نیک عمل کرنے والے مومنوں کو پاکیزہ زندگی گزارنے کی بشارت دیتے ہیں۔ جس روز وہ بے ہوشی میں گئیں ، اس روز پہلا دن تھا جب میں نے انہیں پیمپرلگایا۔ اللہ کی شان ، اللہ اپنے بندوں کا کتنا اکرام کرتا ہے۔ ہم پھر ناک میں خوراک کی نلکی اور آکسیجن پہ انہیں گھر لے آئے۔ بڑی باجی ہر ایک آدھ دن بعد ان کے پاس رہنے آتیں۔ لاہور والی بیٹی بھی ایک ہفتہ رہ کر گئیں۔ پشاور سے بھی بہن آتی جاتی تھیں۔ بڑے بھائی جان صحت کی خرابی کے باوجود آتے رہتے۔ ان کے بچے سب ہی دادی جان، نانی جان کی خدمت میں رہتے۔
بس یہ جمعرات کی رات تھی۔ تجمل پشاور سے رات 9بجے آ گیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ پھر بھائیوں کا آنا ہمیشہ ہی اچھا لگتا ہے۔ میں نے پوچھا خیریت، اس وقت آئے ہو۔ کہتا ہے ماں بہت یاد آرہی تھیں ۔ صبح کام پہ چلا جاؤں گا۔ رات بھر ماں کے پاس رہا۔ صبح حسبِ معمول فجر پہ ایک گھنٹہ قرآن کی دہرائی کی، آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ کیونکہ آج وہ اکیلا ہی انہیں کان میں قرآن کی آیات سنا رہا تھا اور ماں دہرا نہیں رہی تھیں ، سن رہی تھیں۔ کلمہ پڑھوا کر جانے لگا تو راستے میں کہا نوید! ماں ٹھیک نہیں ہیں، گھر کے کام نمٹا کر یہیں آجاؤں گا۔ میں نے کہا تمہارا اپنا گھر ہے بھائی۔ میں ہسپتال اور وہ پشاور چلا گیا۔جمعہ کا روز تھا، میں
12بجے واپس آئی، ماں کو ٹیوب سے کھلایا، سائیڈ بدلی، چند گھونٹ شربت پلایا۔ لگا سانس کچھ ہلکی ہے، آکسیجن چیک کی وہ بھی 94%تھی۔ بس میں نے مصلیٰ بچھا کر ان کے سرہانے نماز شروع کی۔
پہلی ہی رکعت میں مجھے ہلکی سی ہچکی سنائی دی۔ کان لگایا کہ نماز توڑ دوں یا جاری رکھوں، کوئی آواز نہیں آئی۔ نماز پوری کر کے مڑکے دیکھا تو ماں جی، میری امی جی….. اپنے رب کے حضور جا چکی تھیں۔ ایک گہرا اطمینان ان کے چہرے پر تھا۔ ایک گہری سکینت میرے اندر اترتی چلی گئی۔ میں نے دو نفل پڑھے تو مجھے احساس ہؤا کہ وہ چہرہ جس کا میں بوسہ لے سکتی تھی، جسے میں وضو کراتی تھی، جس سے میں دعائیں کرواتی تھی، اب نہیں ہو گا۔
وہ اتنے ہی آرام سے ایک جہان پار کر گئیں جیسے مشک کا منہ کھول دینے سے پانی بہہ نکلتا ہے۔ 11جون انتہائی گرمی کا دن تھا مگر چند ہی لمحوں میں بادل آنا شروع ہو گئے۔ سرمئی بادل اور شام تک بارانِ رحمت برسا کر رب تعالیٰ نے میری امی جی کو بارش کے پانی سے غسل دیا اور مجھے یقین ہے انہیں میل کچیل سے پاک کر دیا، ان کے داخلے کی جگہ کو وسیع کیا ہو گا ، ان کی بہترین میزبانی کی ہو گی، ان کا قرآن ان کی قبر کی وحشتوں میں ان کا ساتھی بن گیا ہو گا۔
یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰادِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر 27-30)
٭ ٭ ٭
ایک نیک صالحہ خاتون کے لئے دل کی گہرائیوں سے لکھی پر تاثیر تحریر